Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 136
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسی بےحیائی کرتے ہو کہ دنیا میں پہلے کسی نے نہیں کی تھی
لغات القرآن آیت نمبر (80 تا 84) ۔ اتاتون (کیا تم آتے ہو ؟ ) ۔ الفاحشتہ (بےحیائی کے کام) ۔ ماسبق (نہیں گزرا) ۔ من احد (کوئی ایک بھی) ۔ الرجال (الرجل) ۔ مرد) ۔ شھوۃ (خواہش۔ بری خواہش) ۔ دون النسآء (حد سے باہر نکل جانے والے) ۔ اخرجوا (نکالو) ۔ قریتکم (تمہاری اپنی بستی) ۔ اناس (لوگ) ۔ یتطھرون (صاف ستھرا رہتے ہیں) ۔ امراتہ (اس کی عورت۔ اس کی بیوی) ۔ الغبرین (پیچھے رہنے والیوں (میں سے) ۔ امطرنا (ہم نے برسایا) ۔ عاقبتہ المجرمین (مجرموں کا انجام) ۔ تشریح : آیت نمبر (80 تا 84 ) ۔ ” قوم لوط کا وہی علاقہ ہے جسے آج ہم بحرمیت یا بحیرہ مردار کہتے ہیں۔ یہ بحیرہ سمندر سے بھی زیادہ گہرائی میں ہے۔ چناچہ اس میں پانی باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اس بحیرہ میں مچھلی، مینڈک، کیڑا غرضیکہ کوئی جاندار زندہ نہیں وہ سکتا۔ قوم لوط کا صدر مقام سدوم تھا۔ جو آجکل اسی بحیرہ میں غرق ہے۔ مگر کبھی یہ علاقہ بڑا سر سبز و شاداب تھا، غلوں اور پھلوں کی کثرت تھی یہاں کم ازکم پانچ خوبصورت بڑے شہر تھے جن کے مجموعہ کو قرآن کریم نے ” مؤتفکہ “ اور مؤتفکات، کے الفاظ سے بیان کا و ہے۔ نعمتوں کی فراوانی اور دولت کی ریل پیل نے یہاں کی قوم کو سرکش بنا دی تھا۔ اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ پہلی ہستی جس نے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی وساطت سے اسلام قبول کیا ان کی بیوی حضرت سارہ تھیں۔ دوسری حضرت ہاجرہ اور تیسرے آپ کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب عراق سے ہجرت فرمائی تو حضرت لوط (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین کے علاقہ کنعان میں جاب سے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو اللہ نے اہل سدوم کی طرف پیغمبر بجا کر بھیجا۔ سورۃ الفلق میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ کہ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے تو وہ سر کشی کرنے لگتا ہے۔ یہی حال سدوم کے رہنے والوں کا ہوا۔ وہ عیش و عشرت میں اتنے مبتلا ہوئے کہ زنا کاری کی نئی نئی راہیں ایجاد کرلیں (جیسا کہ آج کل مغربی ممالک میں ہو رہا ہے) ان میں ایک نئی راہ مردوں کا اختلاط لڑکوں سے اس درجہ بڑھ گیا کہ عورتوں میں ان کی دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی۔ یہ جنسی بےراہ روی اتنی زیادہ پھیل گئی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمای۔ تم لوگ بےحیائی میں دنیا کی ساری قوموں کو پیچھے چھوڑ گئے ہو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردں سے خواہش کرتے ہو۔ یہ وہ ذلیل حرکت ہے جو تم سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے بھی نہیں کی حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل حد سے گزر گئے ہو، اس قوم کی بےغیرتی، ضد اور ہٹ دھرمی کی انتہا یہ تھی کہ کسی شریف گھرانے کو وہ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں سے انہوں نے کہا۔ ہماری بستی سے ان لوگوں کو نکا لو یہ اپنے آپ کو بہت پاک باز سمجھتے ہیں اس قوم کی ان حرکتوں کی وجہ سے بالآخر اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد جگہ فرمایا گیا ہے۔ سورة الحجر اور سورة ہود وغیرہ میں اس عذاب الہٰی کی تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے زبردست چنگھاڑ کی آواز آئی ۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش ہوئی نیچے سے زمین کے پورے طبقہ کو الٹا دیا گیا۔ آج یہ قوم بحیرہ مردار کے نیچے غرق ہے۔ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر ’ فاحشہ، کا لفظ آیا ہے جس کا اطلاق مرد اور عورت دونوں پر ہوتا ہے۔ لیکن مرد۔ مرد کے جنسی تعلقات پر اپنی شدت غضب ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے الف لام کے ساتھ لفظ ’ الفاحشہ، استعمال کیا ہے احادیث میں حضور اکرم ﷺ سے متعدد احکامات مذکور ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف ہرگز نظر رحمت نہیں کرے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔ (2) آپ نے فرمایا کہ جس نے حائضہ عورت سے صحبت کی یا عورت کے ساتھ عمل لوط کیا یا قسمت کا حال بیان کرنے والوں (کاہنوں) کے پاس گیا اور ان کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کی اس نے (حضرت) محمد ﷺ پر نازل کی گئی تعلیم سے کفر کیا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بھی اس فعل کو انتہائی گھناؤنا فرمایا ہے مردوں میں اس فعل کے متعلق ارشاد ہے۔ (3) فاعل اور مفعول (الفاظ زانی اور زانیہ کے استعمال نہیں کئے گئے) دونوں کو قتل کردیا جائے خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ۔ (4) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اوپر والا اور نیچے والا دونوں سنگسار کئے جائیں۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اس لیئے اس فعل کی سزا کیا ہونی چاہئے اس سلسلے میں صحابہ کرام ؓ اور فقہا کی متعدد رائیں ہیں۔ 1) حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرموں کو تلوار سے قتل کیا جائے اور ان کی لاش جلادی جائے۔ 2) حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمان ؓ کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کرکے وہ عمارت اس پر ڈھادی جائے۔ 3) حضرت علی مرتضی کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش کو کلا دیا جائے۔ 4) حضرت ابن عباس ؓ کی رائے یہ ہے کہ بستی کی سب سے اونچی بلڈنگ سے سر کے بل گرا کر اوپر سے پتھر برسائے جائیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کسی ایک واقعہ کے بھی نہ ہونے اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی متعدد آرا کی موجودگی میں فقہا کرام کی بھی مختلف رائیں ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس کو کسی بلند مقام ، پہاڑ یا مینارہ وغیرہ سے گرادیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں یہاں تک کہ وہ مرجائے جیسا کہ قوم لوط کے ساتھ کیا گیا علماء احناف کے نزدیک لواطت کی سزا زنا سے زیادہ شدید ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں فاعل و مفعول دونوں واجب القتل ہیں خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ غرضیکہ یہ ایک ایسا فعل ہے جس پر جتنی بھی شدیدسزا دی جائے وہ کم ہے۔ زنا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں بد ترین فعل ہے لنکا ہم جنس پرستی اتنا بھیانک جرم ہے کہ خواہ اپنی بیوی سے ہی کیا جائے ناقابل معافی جرم ہے۔ آج مغربی تہذیب میں اس بد ترین فعل کو جس طرح فیشن کا حصہ بنا دیا گیا ہے بلکہ قانون کا تحفظ بھی دے دیا گیا ہے اس کے اثرات یہ سامنے آ رہے ہیں کہ ہزاروں دواؤں کی ایجاد کے باوجود اس فعل کے کرنے والوں میں بھیانک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن سے انسانیت کو شدید خطرات لا حق ہوچکے ہیں اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس فعل سے قطعاً محفوظ رکھے۔ آمین۔
Top