Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 4
وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین قِطَعٌ : قطعات مُّتَجٰوِرٰتٌ : پاس پاس وَّجَنّٰتٌ : اور باغات مِّنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّزَرْعٌ : اور کھیتیاں وَّنَخِيْلٌ : اور کھجور صِنْوَانٌ : ایک جڑ سے دو شاخ والی وَّغَيْرُ : اور بغیر صِنْوَانٍ : دو شاخوں والی يُّسْقٰى : سیراب کیا جاتا ہے بِمَآءٍ : پانی سے وَّاحِدٍ : ایک وَنُفَضِّلُ : اور ہم فضیلت دیتے ہیں بَعْضَهَا : ان کا ایک عَلٰي : پر بَعْضٍ : دوسرا فِي : میں الْاُكُلِ : ذائقہ اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے ہیں
اور زمین میں ٹکڑے ہیں جو آپس میں پڑوسی ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور کھتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض کی جڑ بعض سے ملی ہوئی ہے اور بعض ملی ہوئی نہیں ہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ایک دوسرے پر فضیلت دیتے ہیں بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سمجھ سے کام لیتے ہیں
قدرت کی نشانیاں : 1:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے کہ اچھی اور عمدہ زمین اللہ تعالیٰ کے حکم سے فصل اگاتی ہے جبکہ اس کے پڑوس میں ایسی زمین ہے جو شور والی ہے اس پر کوئی فصل نہیں اگتی حالانکہ یہ دونوں ایک ہی زمین ہیں اور ان دونوں کا پانی بھی ایک ہی ہے جو نمکین ہے۔ اور میٹھا ہے لیکن ایک کو دوسری پر فضیلت دی گئی ہے۔ 2:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمین میں پانی نہیں ہے مگر جو نازل ہوتا آسمان سے لیکن زمین کی تہیں اسے تبدیل کردیتی ہیں۔ جو شخص ارادہ کرے کہ نمکین بدل جائے میٹھے میں تو اس کو چاہئے وہ زمین سے پانی کو اوپر نکالے۔ 3:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے زمین کے مختلف ٹکڑے ہیں تنور والی اور میٹھی اور نمکین اور صاف۔ 4:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے بستیاں آپس میں ملی ہوئیں اور اس کا بعض بعض قریب ہے۔ 5:۔ ابوالشیخ رحمہماا للہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے فارس اھواز کوفہ اور بصرہ کے علاقے میں۔ 6:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے ایک زمین جو میٹھے پھل اگاتی ہے اور دوسری زمین جو کچے اور ترش اگاتی ہے اور یہ زمینیں آپس میں ملی ہوتی ہیں اور ایک ہی پانی سے پلائی جاتی ہیں۔ 7:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ سے مراد ہے ایک ہی زمین سے اس میں بادام، امرود انگور سفید و سیاہ لگتے ہیں بعض بڑے ہوئے ہیں اور بعض چھوٹے ہوئے ہوتے ہیں بعض میٹھے ہوتے ہیں اور بعض کھٹے ہوتے ہیں اور بعض بعض سے عمدہ ہوتے ہیں۔ 8:۔ الفریابی و سعید بن منصور وابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے براء بن عازبؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” صنوان وغیر صنوان “ کے بارے میں فرمایا کہ (آیت) ” الصنوان “ سے مراد وہ درخت جس کی جڑ ایک ہوتی ہے جبکہ وہ متفرق ہوتے ہیں اور (آیت) ” غیر صنوان “ سے مراد وہ ہوتے ہیں جو اکیلے اگتے ہیں۔ اور دوسرے لفظ میں (آیت) ” صنوان “ سے مراد ہے وہ کھجور کا درخت جو دوسری کھجور سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ اور (آیت) ” صنوان وغیر “ سے مراد ہے علیحدہ علیحدہ کھجور کا درخت۔ 9:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” صنوان “ سے مراد ہے کھجوروں کا جمع ہونا ایک جڑ میں اور (آیت) ” وغیر صنوان “ یعنی متفرق کھجور کے درخت۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “ یعنی زمین کے مختلف ٹکڑے جو قریب قریب ہیں اور جو کچھ اس کے ساتھ اور چیزیں ہیں اور آیت ” صنوان “ یعنی کھجوروں کے درخت یا زیادہ درخت ہیں جن کی جڑ ایک ہو (آیت ) ” غیر صنوان “ یعنی اکیلا کھجور کا درخت جو پلایا جاتا ہے ” بمآء واحد “ (ایک ہی پانی سے) یعنی آسمان کے پانی سے جیسے مثال ہے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کی کہ کچھ ان میں سے نیک ہیں اور کچھ ان میں سے برے ہیں۔ (حالانکہ) باپ ایک ہی ہے اسی طرح کھجور کے درخت ہیں کہ ان کی جڑ ایک ہوتی ہے۔ لیکن ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ صنوان اور غیر صنوان کی تفسیر : 11:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن منذر رحمہم اللہ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” صنوان وغیر صنوان “ سے اکٹھے اور الگ الگ درخت مراد ہیں۔ (آیت ) ” یسقی بمآء ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل “ یعنی بعض انگور سفید ہوتے ہیں اور بعض سیاہ اور سرخ ہوتے ہیں اور انجیر سفید ہوتی ہے اور پالی ہوتی ہے اور کھجوریں سرخ اور زرد ہوتی ہیں۔ 12:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” صنوان “ سے مراد ہے ایک ہی جڑ میں تین کھجور کے درخت جیسے ماں باپ کے تین بیٹے عمل میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان تین کھجوروں کے پھل بھی آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگرچہ جڑ ایک ہی ہوتی ہے۔ 13:۔ ابن جریر (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ عزوجل نے مثال بیان فرمائی بنوآدم کے دلوں میں آئی کہ زمین رحمن کے ہاتھ میں ایک ہی مٹی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو ہموار کیا ور اس کو پھیلا دیا۔ زمین کے مختلف ٹکڑے بن گئے جو ایک دوسرے کے قریب تھے ان پر آسمان سے پانی برستا ہے پھر وہ زمین اپنی رونق پھل اور درخت نکالتی ہے اور جنت ظاہر کرتی ہے۔ مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس کے قریب والی زمین بارش کے بعد شور۔ حالانکہ ان دونوں کو ایک ہی پانی پلایا جاتا ہے اگر پانی نمکین ہوتا ہے تو کہا جاتا کہ وہ اس پانی کی وجہ سے شور والی ہوگئی۔ اس طرح لوگ پیدا کئے گئے آدم (علیہ السلام) سے ان پر آسمان سے نصیحت اتاری گئی کچھ دل نرم ہوجاتے ہیں اور خشوع کا خضوع کا اظہار کرے ہیں اور اس کے برعکس کچھ دل سخت ہوجاتے ہیں (اللہ کی یاد سے) غافل ہوجاتے ہیں (اللہ کو) بھول جاتے ہیں حسن ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! نہیں ہے بیٹھنے والا قرآن کے ساتھ کوئی بھی مگر اس نے اٹھنے کے وقت زیادتی یا کمی پائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وننزل من القرآن ما ھو شفآء ورحمۃ للمومنین ولا یزید الظلمین الا خسارا (82) (اسراء آیت 82) چچا احترام کی باپ کی طرح ہیں :۔ 14:۔ عبدالرزاق وابن جریر رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” صنوان “ سے مراد ہے وہ کھجور کہ جس میں دو یا تین کھجوریں کے درخت ہیں اور ان کی جڑ ایک ہے اور فرماتے ہیں کہ مجھے ایک آدمی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب ؓ اور عباس ؓ کے درمیان ایک جھگڑا ہوا حضرت عباس ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ پر زیادتی کی عمر نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے نبی ! کیا آپ نے عباس ؓ کو نہیں دیکھا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کا جواب دوں لیکن پھر مجھے آپ کا رشتہ وتعلق یادآ گیا تو میں رک گیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا بیشک آدمی کے چچا اس کے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ 15:۔ عبدالرزاق وابن جریر رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عباس کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو کیونکہ وہ میرے آباواجداد کا بقیہ ہے اور آدمی کا چچا اس کے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ 16:۔ ابن جریر (رح) نے عطا اور ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمر ؓ سے فرمایا اے عمر ! کیا تو نہیں جانتا کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ 17:۔ حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور امام ذہبی نے ضعیف کہا ہے وابن مردویہ (رح) نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اے علی ؓ لوگ مختلف درخت سے ہیں اور میں اور تو اے علی ایک ہی درخت سے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ سے یہ آیتیں تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” وجنت من اعناب وزرع ونخیل صنوان وغیر صنوان “۔ 18:۔ حاکم (رح) نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت ” ونفضل بعضھا علی بعض “ کو نون کے ساتھ پڑھا۔ 19:۔ الترمذی نے اور آپ نے اس کو حسن کہا والبزار وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت آیت ” ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ردی کھجور، فارسی، میٹھے اور ترش پھل ہیں۔ 20:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت ” ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ یہ ترش ہے میٹھا ہے اور یہ ردی کھجوریں ہیں اور یہ فارسی ہیں۔۔ 21:۔ ابوالشیخ (رح) نے مجاہد ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت ” ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ میٹھا ہے یہ کڑوا ہے اور یہ ترش ہے اسی طرح آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں کہ ان کا باپ ایک ہے اور ان میں سے کافر ہیں اور مومن ہیں۔
Top