Dure-Mansoor - At-Tawba : 124
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًا١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : نازل کی جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة فَمِنْھُمْ : تو ان میں سے مَّنْ : بعض يَّقُوْلُ : کہتے ہیں اَيُّكُمْ : تم میں سے کسی زَادَتْهُ : زیادہ کردیا اس کا هٰذِهٖٓ : اس نے اِيْمَانًا : ایمان فَاَمَّا : سو جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے فَزَادَتْھُمْ : اس نے زیادہ کردیا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّھُمْ : اور وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے ہیں
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان سے تم میں سے کس کے ایمان کو بڑھایا، سو جو لوگ اہل ایمان ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو بڑھادیا اور وہ خوش ہوتے ہیں
1:۔ عبد بن حمید وابن منذر رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) فمنہم من یقول ایکم زادتہ “ سے مراد ہے کہ منافقین میں سے بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں۔ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہونا : 2:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانا “ کے بارے میں فرمایا کہ جب کوئی سورت اترتی تھی تو (مومنین) اس پر ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان اور تصدیق میں اضافہ کردیا اور وہ اس کے ذریعہ خوش ہورہے تھے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” فزادتھم رجسا الی رجسہم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سورت نے ان کے پہلے شک میں اور شک کا اضافہ کردیا۔ 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اولایرون انہم یفتنون “ یعنی وہ آزمائش میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یفتنون “ یعنی مبتلا کئے جاتے ہیں۔ ’(آیت) ” فی کل عام مرۃ اومرتین “ تین قحط سالی سے اور بھوک سے (ہرسال ایک بار یا دو بار آزمائے جائے جاتے ہیں) 6:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یفتنون فی کل عام مرۃ اومرتین “ یعنی وہ آزمائش میں مبتلا کئے جاتے ہیں دشمن کے ذریعہ ہر سال میں ایک یا دو مرتبہ۔ 7:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یفتنون فی کل عام “ یعنی وہ لوگ آزمائش میں مبتلا کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جنگ لڑنے کی وجہ سے۔ 8:۔ ابو الشیخ (رح) نے عتبی (رح) سے روایت کیا کہ جب کوئی بندہ بیمار ہوا پھر اس کو عافیت دی گئی تو پھر بھی وہ خیر (کے کاموں) میں زیادہ نہیں ہوا۔ تو فرشتے کہتے ہیں یہ وہ آدمی ہے کہ جس کو ہم نے دوا دی مگر اس کو دوا نے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 9:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابو سعید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اولایرون انہم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین “ یعنی ان کے لئے ہر سال میں ایک بار یا دو بار جھوٹ بولنا ہوتا ہے۔ 11:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم ابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اولایرون انہم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم سنتے ہیں ہر سال میں ایک بار یا دو بار جھوٹ کو اور اس کے ذریعہ گمراہ ہوجاتی ہے ایک جماعت بہت سے لوگوں میں۔ 12:ـ۔ ابو الشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ کی قرأت میں یوں ہے (آیت) ” اولایرون انہم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین وما یتذکرون “
Top