Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ
وَ : اور لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کی مَنْسَكًا : قربانی لِّيَذْكُرُوا : تاکہ وہ لیں اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلٰي : پر مَا رَزَقَهُمْ : جو ہم نے دئیے انہیں مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَاِلٰهُكُمْ : پس تمہارا معبود اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : معبودِ یکتا فَلَهٗٓ : پس اس کے اَسْلِمُوْا : فرمانبردار ہوجاؤ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُخْبِتِيْنَ : عاجزی سے گردن جھکانے والے
” ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ (ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیع فرمان بنو اور اے نبی ؐ بشار دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو
ولکل امۃ ……ینفقون (35) اسلامی نظام زندگی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ انسان کے احساسات اور اس کے رجحانتا کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔ چناچہ اس کی اسکیم یہ ہے کہ شعور ، عمل ، سرگرمی ، عبادت ، ہر حرکت اور ہر عادت کو ایک نئی سمت دی جائے اور ہر چیز کو اسلام نظریہ حیات کے رنگ میں رنگ دیا جائے ۔ اس نقطہ نظر سے اسلام نے ان مذبوحہ جانوروں کو حرام قرار دے دیا ہے جن پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور یہ لازم کردیا کہ ذبیحوں پر اللہ کا نام لیا جائے بلکہ عین ذبح کے وقت اونچی آواز سے اللہ اکبر کہا جائے ، گویا جانور ذبح ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس طرح اللہ کا نام لیا جائے۔ ولکل امۃ جعلنا مسکا لیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام (22 : 33) ” ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ اس امت کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ “ اس کے بعد عقیدہ توحید کی تصریح آتی ہے۔ فالھکم الہ واحد (22 : 33) ”(مقصد صرف یہ ہے) کہ تمہارا ایک ہی خدا ہعے “۔ جب خدا ایک ہے تو ہر معاملہ میں اطاعت بھی اسی ایک کی ہونی چاہئے۔ فلہ اسلموا (22 : 33) ’ دپس اس کے مطیع فرمان بنو۔ “ یہ اطاعت جبر کی اطاعت نہیں ہے اور نہ اسلام میں کوئی جبر ہے ، بلکہ دل کی آمادگی سے سر تسلیم خم کرنا مقصود ہے۔ وبشر المخبتین (22 : 33) الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم (22 : 35) ” اے نبی ﷺ بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو ، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ “ محض اللہ کا نام سنتے ہی ان کے شعور اور ان کے ضمیر میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ کانپ اٹھتے ہیں۔ والصبرین علی ما اصابھم (22 : 35) ” جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔ “ لہٰذا اللہ ان کے بارے میں جو فیصلہ کرے ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ والمقیمی الصلوۃ (22 : 35) ” اور نماز قائم کرتے ہیں۔ “ اور اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح عبادت کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ومما رزقنھم ینفقون (22 : 35) ” اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ “ وہ اپنے مال میں اللہ کے مقابلے میں بخل نہیں کرتے۔ یوں عقیدے ، نظریات اور دین کے بنیادی شعائر کے اندر ربط پیدا کر کے ذات باری کو ہر چیز کا محور بنا دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح اسلامی نظام کا یہ جزء خصوصاً عبادات اس کے عقائد و نظریات کا مظہر اور رمز بن جاتی ہیں۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی میں اس کے عقیدے کا رنگ ہو ، اس طرح ان کی قوت عمل اور ان کی سمت کے درمیان کوئی تضاد نہ ہو اور نفس انسانی شعور انسانی اور عمل انسانی کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کشمکش نہ ہو۔ اب سیاق کلام ذرا مزید آگے جاتا ہے اور اس مفہوم کو مزید تاکیدی انداز میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ محض کھانے پینے کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کے اس شعار اور عمل میں بھی اصل روح وہی ہے۔
Top