Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ
وَ : اور لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کی مَنْسَكًا : قربانی لِّيَذْكُرُوا : تاکہ وہ لیں اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلٰي : پر مَا رَزَقَهُمْ : جو ہم نے دئیے انہیں مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَاِلٰهُكُمْ : پس تمہارا معبود اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : معبودِ یکتا فَلَهٗٓ : پس اس کے اَسْلِمُوْا : فرمانبردار ہوجاؤ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُخْبِتِيْنَ : عاجزی سے گردن جھکانے والے
اور ہم نے ہر ایک امت کے لئے قربانی رکھ دی تھی،52۔ تاکہ وہ لوگ اللہ کا نام ان چاپایوں پر لیں جو اس نے انہیں عطا کر رکھے ہیں،53۔ سو تمہارا خدا تو خدائے واحد ہی ہے،54۔ تم اسی کے آگے جھکو،55۔ اور آپ خوش خبری سنادیجیے گردن جھکا دینے والوں کو،56۔
52۔ قربانی کا حکم کسی نہ کسی صورت میں ہر پچھلی شریعت میں موجود رہا ہے۔ یہ شریعت اسلامی کا کوئی نیا اور انوکھا حکم نہیں اور اہل کتاب کے مذہب (یعنی مذہب بنی اسرائیل) میں تو قربانی مذہب کا ایک اہم رکن ہے۔ حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی، آج منکرین کا جو گروہ کہہ رہا ہے کہ قربانی کا حکم قرآن میں کہیں مذکور نہیں۔ کاش وہ آیت نمبر 29 کی طرح اس آیت پر بھی غور کرنا سیکھے ! (آیت) ” لیذکروا ...... الانعام “۔ یعنی مقصود اصلی تو بس اللہ کے نام کی تعظم اور اللہ کے نام سے حصول تقرب رہا ہے، مذبوح اور مذبح کی حیثیت صرف آلہ اور ظرف کی ہے۔ بعض اہل علم صوفیہ نے مفہوم آیت کے عموم واطلاق سے اہل باطن کے مسلکوں میں اختلاف کے باوجود اتحاد مقصود کا نکتہ بھی نکالا ہے۔ 53۔ مقصود اصلی بس اسی کی تعظیم ہے۔ حرم ہدی وغیرہ کے آداب و احکام سب اسی غایت کے لیے ہیں۔ 54۔ (سو نہ تو کسی غیر اللہ کے آگے بھینٹ چڑھاؤ اور نہ کسی مکان وغیرہ کو معظم بالذات سمجھ کر ہرگز اپنے اندر شائبہ شرک پیدا ہونے دو ) 55۔ (جنت و رضاء الہی کی) (آیت) ” المخبتین “۔ یعنی احکام شریعت کے آگے گردن جھکا دینے والوں کو۔ 56۔ یعنی اس کی ذات کا، صفات کا، احکام کا، وعدہ وعید کا، ذکر کیا جاتا ہے۔
Top