Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا
: تم ہرگز نہ پہنچو گے
الْبِرَّ
: نیکی
حَتّٰى
: جب تک
تُنْفِقُوْا
: تم خرچ کرو
مِمَّا
: اس سے جو
تُحِبُّوْنَ
: تم محبت رکھتے ہو
وَمَا
: اور جو
تُنْفِقُوْا
: تم خرچ کروگے
مِنْ شَيْءٍ
: سے (کوئی) چیز
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِهٖ
: اس کو
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو اور جو کچھ تم خرچ کروگے اللہ اس سے بیخبر نہ ہوگا۔
امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ ابواسحاق ابن عبداللہ ابن ابی طلحہ سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں انہوں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا انصار مدینہ میں ابوطلحہ بہت ہی مالدار تھے ۔ اور ان کو ان کی دولت سے محبوب ترین ایک کنواں تھا جسے ” حاء “ کہتے تھے ۔ یہ مسجد نبوی کے بالمقابل تھا ۔ رسول ﷺ اس کنویں پر جایا کرتے تھے ۔ اور اس کا پاک وصاف پانی پیا کرتے تھے ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ……………” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ تو ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ اور میرا محبوب مال تو ” حاء “ کنواں ہے ۔ اور وہ میری طرف سے صدقہ ہے ۔ میں اس کا ثواب اور عنداللہ اس کی جزاء چاہتا ہوں ۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واہ واہ ! یہ تو بڑا نفع بخش اور قیمتی مال ہے۔ یہ تو نفع بخش مال ہے۔ میں نے سن لیا لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے اقرباء کے درمیان تقسیم کردیں تو ابوطلحہ نے کہا : تو اللہ کے رسول ﷺ آپ ایسا ہی کردیں۔ تو رسول ﷺ نے اسے اس کے قرباء اور چچازادوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔ (روایت مسلم و بخاری) مسلم بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ خیبر میں مجھے جو حصہ ملا ہے ‘ اس سے اچھی جائیداد مجھے کبھی نہیں ملی تو اس کے بارے میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اصل جائیداد اپنے پاس رہنے دو پیداوار سبیل اللہ کردو۔ “ اسی راستے پر صحابہ کرام ؓ میں سے اکثر ایک دوسرے سے آگے بڑھے ‘ یوں وہ اپنے رب سے بھلائی کی تلاش میں اس آیت پر لبیک کہتے رہے ۔ اس دور میں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ۔ اللہ کی آواز پر لبیک کہہ کر انہوں نے مال اور دولت کی غلامی سے اپنے آپ کو رہائی دلائی ۔ دلی بخل اور کنجوسی سے نجات پائی اور ذاتی لالچ سے پاک ہوئے ۔ اور یوں اس مقام بلند تک جاپہنچے جو نہایت بلند ‘ نہایت ہی روشن ‘ چمکدار تھا ‘ آزاد ‘ ہلکے پھلے ہر قید وبند سے نکلے ہوئے۔ پارہ چہارم ایک نظر میں یہ پارہ سورة آل عمران کے آخری حصہ اور سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ یعنی آیت وَالمُحصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ……………تک سورة آل عمران کا آخری حصہ چار اجزاء پر مشتمل ہے ‘ جو سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ہم سورة آل عمران پر تبصرہ کرتے وقت بحث کر آئے ہیں ۔ یعنی پارہ سوئم میں ۔ یہاں اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہاں تبصرہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً یہ جان لینا چاہئے کہ سورة آل عمران کے ان چار اجزاء میں پہلا ان مکالمات پر مشتمل ہے جو مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں ‘ اہل کتاب اور اہل ایمان کے درمیان ہوئے ۔ یہ مکالمات اس تاریخی پس منظر میں ہوئے جس کے بارے میں ہم آغاز صورت میں وقت کا تعین کرچکے ہیں ۔ یہ مکالمات رمضان 2 ھ کے بعد ماہ شوال 3 ھ کے بعد تک کے دور میں ہوئے ۔ اس سے پہلے سورة آل عمران ‘ تقریباً اس عظیم الشان معرکہ پر تبصرہ ہے ۔ ان تبصروں کے ذریعہ اسلامی تصور حیات کی ماہیت ‘ دین کی حقیقت ‘ اسلام کی حقیقت اور اس نظام کی حقیقت بیان کی گئی ہے جو اسلام نے پیش کیا ‘ اور اسلام سے قبل تمام رسولوں نے اس نظام کو پیش کیا ۔ ان تبصروں میں اہل کتاب کی حقیقت اور ان کے موقف کو بھی واضح کیا گیا ‘ جو رسول اکرم ﷺ کے ساتھ دینی امور میں مجادلہ کیا کرتے تھے ‘ اور آپ کے صحابہ کرام کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے ۔ یہ واضح کیا گیا کہ اہل کتاب دین اسلام سے کس قدر دور جاچکے ہیں ‘ اور یہ کہ مدینہ میں وہ جماعت مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کررہے تھے ‘ اس سورت میں اس کا بھی انکشاف کیا گیا ‘ اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ان سازشوں کے پس پردہ کیا کیا خفیہ محرکات کام کررہے ہیں ۔ ان تمام امور پر روشنی ڈال کر اسلامی جماعت کو ان سب معاملات کے بارے میں خبردار کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک عظیم خطرے سے دوچار ہے ۔ اسے غفلت نہ کرنا چاہئے اور ان امور میں دشمن کی کوئی بات تسلیم نہیں کرنا چاہئے ۔ آیات کا دوسرا ٹکڑا جو اس سورت کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے ‘ وہ ایک دوسرے معرکے پر محیط ہے ۔ یہ معرکہ صرف مکر و فریب اور زبانی جدل و مباحثہ پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہ معرکہ تیر وسنان ہے اور ضرب وحرب پر مشتمل ہے ۔ یعنی غزوہ احد ‘ اس کے واقعات ‘ اس میں پیش آنے والے واقعات کے اسباب ونتائج ‘ غزوہ احد پر یہ تبصرہ اس مخصوص اسلوب میں ہے جو قرآن مجید کا شاہکار اور اس کا اعجاز ہے ‘ یہ آیات اس معرکہ کے اختتام پر نازل ہوئیں ‘ اس لئے ان میں بھی اسلامی تصور حیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس معرکے کے حوادث کے حوالے سے اسلامی جماعت کی تربیت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے نقطہ نظرت سے اس معرکے میں جو غلطیاں ہوئیں یعنی اسلامی صفوں میں جو انتشار پیدا ہوا اور بعض وہ اقدامات جو اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوئے ۔ ان واقعات کی وجہ سے ان حالات میں قرآن کریم نے جماعت مسلمہ کو ہدایت دی کہ وہ اپنی راہ پر گامزن رہے ‘ اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انہیں انگیز کرے اور وہ مقام اور مرتبہ حاصل کرے جو اس امانت عظمیٰ کے شایان شان ہے ‘ جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے سپرد کی ہے اور اللہ نے اس امت کو یہ نظام دے کر جس اعزاز پر فائز کیا ہے اور جس عظیم فریضہ کے سر انجام دینے کے لئے منتخب کیا ہے ‘ اس پر وہ اللہ کا شکر بجالائے۔ تیسرے حصے میں روئے سخن پھر اہل کتاب کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اور اہل کتاب کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ معاہدات کو ایک ایک کرکے توڑ رہے ہیں ‘ جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ مدینہ طیبہ میں تشریف لاتے ہی طے کئے تھے ۔ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ انہوں نے صحیح اسلامی تصور حیات سے انحراف کرلیا ہے اور یہ کہ انہوں نے ‘ اپنی پوری تاریخ میں ‘ مختلف اوقات میں اپنے انبیاء کے مقابلے میں مسلسل جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے بعد امت مسلمہ کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فکر وعمل میں اہل کتاب کی پیروی نہ کریں اور راہ حق میں انہیں جو جانی اور مالی نقصانات پیش آرہے ہیں ‘ ان پر صبر کریں اور ہر حال میں اپنے دشمنوں سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔ حصہ چہارم میں بتایا گیا ہے کہ صحیح اہل ایمان کے نزدیک اپنے رب کے ساتھ تعلق کی کیا نوعیت ہوتی ہے ‘ جب وہ اس کائنات میں باری تعالیٰ کی آیات ونشانات پر غور کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں ایمان باللہ راسخ ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنے رب اور رب کائنات کی طرف بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور ان کا رب ان کی ایسی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں اجر عظیم عطا کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں اہل کفر کے حالات یہ ہیں کہ انہیں صرف اس دنیا کا متاع قلیل دیا گیا ۔ یعنی اس کرہ ارض پر اور یہ کہ آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو ان کے لئے تیار ہے اور نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ اس سورت کا خاتمہ اس پکار پر ہوتا ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صبر کرنے ‘ مشکلات برداشت کرنے ‘ باہم متحد ہوکر دشمنوں کے مقابلے میں چوکنا ہونے ‘ اور ہر وقت اللہ کا خوف دل میں رکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ تاکہ وہ اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں۔ یہ چار اسباق جو باہم مربوط ہیں اور ایک ہی سلسلہ کلام میں پارہ سوئم میں بیان کئے ہوئے ہیں مضامین کا تکملہ ہیں اور انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے بارے میں ہم پارہ سوئم کے آغاز ہی میں تفصیلاً بحث کر آئے ہیں اور مزید تفصیلات اس وقت بیان ہوں گی جب ہم ان پر تفصیلاً بحث کریں گے اور آیات کی تفسیر بیان کریں گے ۔ اس پارے کا دوسرا حصہ سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ اس پر بحث سورٔ نساء کے ابتدائیہ میں ہوگی ‘ انشاء اللہ اور اللہ ہی ہے جو توفیق اور ہمت دینے والا ہے۔ سبق 26 ایک نظر میں اس سبق میں ‘ اہل کتاب کے ساتھ ‘ جدل ومناظرے کا یہ معرکہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ آیات وفد اہل نجران کے مباحثے کے ضمن میں نہیں آتیں جیسا کہ روایات میں بھی ذکر آتا ہے ‘ لیکن پنے مضمون اور مفہوم کے اعتبار سے یہ ان آیات کے ساتھ ملتی جلتی ہیں اور انہی کا تکملہ ہیں جو وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ موضوع وہی ہے ‘ اگرچہ روئے سخن خاص یہودیوں کی طرف ہے۔ اور بتادیا گیا کہ وہ مدینہ کے اہل ایمان کے خلاف کیا کیا خفیہ سازشیں ‘ کس کس طرح کررہے ہیں ۔ یہ مجادلہ مکمل بائیکاٹ اور مکمل علیحدگی پر منتہی ہوتا ہے اور پھر روئے سخن ‘ اس سبق میں تھوڑی دیر ہی میں اہل اسلام کی طرف پھرجاتا ہے اور صرف انہیں مخاطب کیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کا نظام زندگی کیا ہے ‘ اس کے فرائض کیا ہیں ‘ بعینہ اس طرح جس طرح سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ مکالمہ ختم کرنے کے بعد امت مسلمہ کو مخاطب کیا گیا تھا ۔ اس لحاظ سے ان دونوں سورتوں میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اس سبق کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ نبی اسرائیل پہ کھانے پینے کی ہر چیز حلال تھی ۔ ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بعض اشیاء سے پرہیز کرتے ہوئے ‘ انہیں اپنے لئے ممنوع قرار دیا تھا ۔ یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جب توراۃ نازل ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں محرمات طعام کی جو فہرست مروج تھی ‘ اسلام نے ان اشیاء میں سے بعض کا استعمال چونکہ جائز قرار دے دیا تھا ‘ اس لئے یہودیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا ۔ حالانکہ یہ اشیاء صرف یہودیوں کے لئے حرام قرار دی گئی تھیں اور یہ بھی اس لئے کہ وہ نافرمانیاں کا ارتکاب کرتے تھے اور ان پر یہ چیزیں حرام کرکے انہیں سزا دی گئی تھی ۔ اس کے بعد تحویل قبلہ پر وہ جو اعتراضات کرتے تھے ‘ اس کا بھی جواب دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سورة بقرہ میں ایک طویل بحث ہوچکی تھی ۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ بیت ابراہیم (علیہ السلام) ہے ۔ اور یہ پہلا گھر ہے جو اس کرہ ارض پر صرف اللہ کی عبادت اور بندگی کے لئے بنایا گیا ۔ اس لئے جو لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہونے کے مدعی ہیں ‘ ان کی جانب سے بیت ابراہیم (علیہ السلام) کو قبلہ قرار دینے کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے ہیں ‘ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہ صحیح اور صراط مستقیم چھوڑ کر ٹیڑھے راستوں پر بھٹک رہے ہیں ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ گمراہی اسلامی نظام زندگی پر بھی چھاجائے ‘ حالانکہ وہ حق کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں ‘ اور وہ بیخبر نہیں ہیں ۔ ایسے حالات میں قرآن کریم اچانک اہل کتاب کو چھوڑ کر امت مسلمہ کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں زور دار الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ وہ اہل کتاب کی اطاعت نہ کریں کیونکہ ان کی اطاعت عین کفر ہے۔ اور اہل ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ عین اسی وقت کفر اختیار کریں جب نبی ان کے سامنے اللہ کی کتاب پیش کررہا ہو ‘ اور رسول اللہ ان میں موجود ہوں اور انہیں اس کتاب کی تعلیم بنفس نفیس دے رہے ہوں ‘ وہ ان کا تزکیہ کرتے ہوئے انہیں اللہ خوفی کی تعلیم دے رہے ہوں ‘ اور انہیں یہ تلقین کررہے ہوں کہ وہ اسلام پر اپنی زندگی میں جمے رہیں اور اسی حالت میں اسلام میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ رسول اللہ اور کتاب اللہ انہیں یاد دلارہی ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جوڑا ‘ یہ اس کی بڑی نعمت تھی کہ اس نے ‘ اسلام کے جھنڈے تلے ‘ ان کی صفوں کو یکجا کیا ۔ حالانکہ اس سے قبل ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے تھے ‘ اور باہم برسر پیکار تھے ۔ بلکہ وہ آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور اس میں گرنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بچایا اور یہ نجات انہیں اسلامی نظام زندگی کے سبب ملی۔ پھر یہ کتاب تمہیں کتاب تمہیں حکم دیتی ہے کہ تم ایک ایسی امت کی شکل اختیار کرو جس کا مشن اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے منع کرنا ہو ‘ اور نصب العین کے محافظ رہیں کہ تم نے اسلامی نظام زندگی کو بروئے کار لانا ہے ۔ پھر تمہیں ڈرایا جارہا ہے کہ تم اہل کتاب کی وسوسہ اندازیوں اور دسیسہ کاریوں پر کان ہی نہ دھرو کیونکہ یہ لوگ تمہاری صفوں کے اندر ہیں ‘ وہ تمہارے اندر اختلافات ڈال کر تمہیں بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح وہ خود ان ہی کے اختلافات کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں تباہی سے دوچار ہوئے ۔ روایات میں قرآن کریم کے اس انتباہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ اوس اور خزرج کے درمیان یہودیوں نے اختلاف پیدا کرکے ایک عظیم فتنے کے بیج بودئیے تھے ۔ اس کے بعد قرآن کریم امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کا مقام ومنصب کیا ہے ؟ حضرت انسان کی زندگی کے ڈرامے میں امت مسلمہ نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ” تم تو وہ خیر امت ہو جسے تمام لوگوں کی خاطر برپا کیا گیا ہے ‘ تمہارا فرض یہ ہے کہ تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان لاؤ۔ “ یوں اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرتا ہے کہ تمہارا مشن کیا ہے ؟ اور تمہاری سوسائٹی کا رنگ ڈھنگ کیا ہونا چاہئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے دشمن کی ذرا خبر لی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اہل اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ ہی وہ مسلمانوں پر غلبہ پاسکتے ہیں ‘ ایسا غلبہ جو مکمل بھی ہو اور دائمی بھی ہو ‘ ہاں وہ یہ کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جدوجہد کے دوران انہیں اذیت دے سکتے ہیں ‘ البتہ مسلمان اگر اسلامی نظام زندگی اور اپنے منہاج پر قائم رہے تو اللہ کی نصرت انہیں حاصل رہے گی ۔ ان دشمنان خدا پر اللہ تعالیٰ نے ذلت مسلط کردی ہے ۔ وہ ہمیشہ حالت مسکینی میں رہیں گے ۔ اللہ کا غضب ان کو گھیرے رہے گا ۔ اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوگا کہ انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ معاصی کا ارتکاب کیا ۔ ناحق اپنے نبیوں تک کو قتل کیا ۔ اہل کتاب میں سے بہر حال ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ۔ ایمان لے آئے اور انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اہل اسلام کا منہاج اپنایا۔ اور نیکی اور بھلائی کے پھیلانے کا مشن ان کا نصب العین بن گیا۔ ایسے لوگ بہرحال صالحین میں سے ہیں ۔ ہاں جن لوگوں نے کفر کا راستہ اپنایا ‘ اسلام کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ تو وہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے ماخوذ ہوں گے ‘ ان کی دولت انہیں کوئی نفع نہ دے گی ‘ ان کی اولاد انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی ۔ اور انجام کار انہیں ایک عظیم تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سبق کا خاتمہ اہل ایمان کو اس بات کا خوف دلانے پر ہوتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی خفیہ دوستی قائم نہ کریں۔ اس لئے کہ یہ دوسرے لوگ اپنے دلوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف بغض وعداوت چھپائے ہوئے ہیں ۔ ان کی باتوں سے اہل اسلام کے خلاف بغض وعداوت ٹپکتی ہے ۔ اور ان کے دلوں کے اندر اہل اسلام کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے وہ نہایت ہی خوفناک ہے ۔ انتہائی غصے اور نفرت کی وجہ سے وہ اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں اور اہل اسلام پر اگر کوئی آفت ومصیبت آتی ہے تو یہ نہایت ہی خوش ہوتے ہیں اور اگر اہل اسلام کے لئے کوئی کامیابی ظہور پذیر ہوتی ہے تو وہ بہت کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں ۔ ان توضیحات کے آخر میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کانگہبان اور محافظ ہے ۔ اگر وہ صبر سے کام لیں اور اللہ خوفی کا رویہ اختیار کریں تو اللہ ان کے دشمنوں کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام کردے گا ۔ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعمَلُونَ مُحِیطٌ……………” جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر حاوی ہے۔ “ یہ طویل توضیحات اور متنوع اشارے ‘ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دور میں جماعت مسلمہ اور اہل ایمان کی صفوں میں اہل کتاب کس طرح گھسے ہوئے تھے اور کیا کیا سازشیں کررہے تھے ۔ اور بےچینیاں پھیلا رہے تھے ۔ اور یہ کہ اس سبق نے اس وقت بحرانی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ نیز یہاں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو کس قدر مضبوط راہنمائی کی ضرورت تھی ‘ تاکہ وہ اپنے اور جاہلیت کے کامریڈوں کے درمیان پائے جانے والے تعلقات وروابط کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اسلامی نظریہ حیات اور جاہلیت کے درمیان ایک قطعی امتیاز پیدا کردیا جائے ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کے بعد آئندہ نسلوں کے لئے بھی یہ ہدایت اور توضیح کام آئے ۔ اور آنے والی نسلوں کو متنبہ کردیا جائے کہ ان کے موروثی دشمن کون ہیں ؟ یہ ایسے دشمن ہیں کہ وہ نئے نئے روپ اور نئے نئے وسائل لے کر میدان میں آتے ہیں لیکن ہیں وہ ایک ہی۔
Top