Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 18
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
کیا اس کے لئے تم وہ مخلوق تجویز کرتے ہو جو زیوروں (اور آسائش و زیبائش) میں پروان چڑھے ؟ اور وہ بحث و حجت میں (اپنا مدعا بھی) پوری طرح واضح نہ کرسکے ؟
20 عربوں کے ایک عمومی احساس کی تعبیر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا وہ مخلوق ۔ اس کی شریک ہوسکتی ہے ۔ جو زیور میں پروان چڑھے ؟ "۔ معلوم ہوا کہ آرائش و زیبائش میں رہنا مردوں کی شان نہیں، عورتوں کی صفت ہے۔ مردوں کی زینت محنت و مشقت اور جہاد و دقتال ہے۔ چناچہ حضرت عمر۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ آپ ؓ نے مردوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ " روکھا سوکھا کھاؤ، موٹا جھوٹا پہنو اور محنت و مشقت کی زندگی گزارو "۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو عورت میدان حرب و ضرب کی مخلوق نہیں۔ عربوں کا عورت کے بارے میں یہی ذہن تھا اور یہاں پر اسی کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سو عورت کے بارے میں یہ تبصرہ اللہ تعالیٰ کا نہیں بلکہ عربوں ہی کا ہے۔ کیونکہ عربوں کے یہاں عورت مبارزت اور مفاخرت کے میدان کی چیز تھی ہی نہیں۔ (تدبر قرآن) ۔ " خصام " کا لفظ یہاں پر " مبارزت " اور " مفاخرت " دونوں معنوں پر مشتمل ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں ان ہی دوچیزوں کی اصل اور بنیادی اہمیت تھی۔ ان کے یہاں آپس میں آئے دن جنگیں بھی برپا ہوتی رہتی تھیں اور باہمی مفاخرت کی مقابلے بھی۔ جن میں ان کے شعراء و خطباء اپنے اپنے قبیلوں کے مفاخر بیان کرتے اور داد وصول کرتے۔ اور ظاہر ہے کہ عورت ان دونوں ہی میدانوں میں ایک فروتر مخلوق تھی۔ اس لیے عربوں کی نگاہوں میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ سو یہاں پر ان کو انکے اسی عمومی احساس کی بنا پر جھنجوڑا گیا ہے کہ ایسی کمزور اور فروتر مخلوق کو تم لوگ خداوند قدوس کا شریک اور اس کا جزء قرارد دیتے ہو۔ آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے اور تمہاری کیوں اور کہاں ماری گئی ؟۔ 21 مشرکین کے ضمیروں پر دستک مزید : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو اپنا مدعا بھی پوری طرح واضح نہ کرسکے " یعنی میدان مبارزت و مفاخرت میں وہ کوئی جوہر نہ دکھا سکے۔ اپنی عقل و فکر اور زبان وبیان کی کمزوری اور اپنی فطرت و طبعی ساخت و بناوٹ اور شرم و حیا کی وجہ سے۔ یہ صنف نازک کی عمومی خصوصیات اور اس کی جنسی نوعیت کا بیان ہے۔ باقی اگر کوئی اکا دکا مثال اس کے برعکس ہو تو وہ اس کے منافی نہیں کہ وہ شواذ کے حکم میں ہے۔ جبکہ اعتبار عموم اور کل کا ہوتا ہے نہ کہ شواذ و افراد کا۔ یہاں بھی استفہام رد و انکار کے لئے ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور جیسا کہ ابھی اوپر کے حاشیے میں گزرا، عورت کے بارے میں یہ تبصرہ قرآن کا نہیں بلکہ عربوں کا ہے کہ ان کے نزدیک قدیم زمانے سے یہی کہنا اور ماننا تھا کہ عورت کا میدان مبارزت اور مفاخرت ہے ہی نہیں۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ بات کچھ عربوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر جگہ اور ہر زمانے اور ماحول میں عورت کی حیثیت بالعموم یہی رہی کہ اپنی اصل اور عرف کے اعتبار سے وہ نہ زرہ بکتر اور شمشیر وسنان کی مخلوق ہے اور نہ ہی خطابت و شاعری کی۔ اور ہمارے اس دور میں بھی عورت کو جو اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ نمائش کی مجالس کی حد تک ہی ہے۔ باہمی مبارزت و مفاخرت کے اعتبار سے وہ آج بھی وہیں ہے جہاں زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ہاں تھی۔ اور یہ بات اس کے فطری تقاضوں کے بھی عین مطابق ہے۔ اسی لیے اس کو آج بھی صنف نازک ہی کہا جاتا ہے اور فاطر نے اس کی فطرت کو بنایا ہی ایسے ہے۔
Top