Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 5
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِؕ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَخْفٰى : نہیں چھپی ہوئی عَلَيْهِ : اس پر شَيْءٌ : کوئی چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں
اور اللہ سے تو کوئی چیز ( بھی) پوشیدہ نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔
ترکیب : ھومبتداء الذی الخ خبر ‘ فی الارحام متعلق ہے یصور سے۔ کیف ظرف ہے یشا کا یہ کل جملہ موضع حال میں ہے فاعل یشاء سے ‘ تقدیرہ یصور کم علی مشیتہ ای مرید امنہ آیات محکمت جملہ موضع نصب میں ہے کیونکہ حال ہے کتاب سے۔ اس جملہ میں آیات محکمات صفت و موصوف مبتدا اور منہ خبر۔ ھُنَّ مبتداء ام الکتاب خبر ‘ لفظ ام گرچہ مفرد ہے لیکن معنی جنس کے دیتا ہے اس لئے جمع کی خبر ہوگیا۔ اُخر جمع ہے اخرٰی کی جو مونث ہے۔ آخرا فعل تفضیل کا معطوف ہے آیات پر ‘ متشابہات اس کی صفت ہے ما بمعنی الذی تشابہ منہ صلہ مجموعہ مفعول ہے۔ یتبعون کا ابتغاء مفعول لہ یتبعون کا الفتنۃ مضاف الیہ اور اسی طرح ابتغاء تا ویلہ والراسخون فی العلم مبتداء یقولون الخ خبر اور بعض کہتے ہیں والراسخون معطوف ہے لفظ اللہ پر اور یقولون حال ہے۔ تفسیر : پہلے خدا تعالیٰ نے عقائدِ باطلہ کے ابطال میں اپنے وصف میں الحی القیوم ذکر فرمایا تھا اور حی قیوم وہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی حاجات پوری کرے اور ان کی ضروریات کا خبر گیراں رہ کر تدبیر و تصرف کرے اور یہ بات دو وصف چاہتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کو ہر ایک بات کا علم بھی ہو۔ انجام آغاز پر نظر ہو۔ بےسوال کئے بھی حاجت کو جانتا ہو۔ دوسری یہ چیز کہ ہر چیز پر قادر بھی ہو۔ جو چاہتا وہ کرسکتا ہو۔ اس لئے صفت علم کے اثبات کے لئے ان اللّٰہ لا یخفی علیہ شیء فی الارض ولا فی السماء فرمایا کہ اس کو ہر چیز معلوم ہے۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔ دوسرے وصف کے ثابت کرنے کو ھو الذی یصور کم فی الارحام کیف یشاء فرمایا کہ اس کا تصرف اشرف المخلوقات انسان پر بھی ماں کے پیٹ اور اندھیری کوٹھڑی میں کس نظم و نسق کے ساتھ ہے کہ عقل حیران ہے جس کی کسی قدر کیفیت کتب طبیہ سے معلوم ہوتی ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ اول وصف ان اللہ الخ بھی گویا ایک دعویٰ تھا۔ اس کے ثبوت کے لئے ھوالذی یصورکم دلیل قاطع ہے کیونکہ جو ارحام میں ایسی تصرفات کرتا ہے اس پر کوئی چیز کب مخفی رہ سکتی ہے ؟ یا یوں کہو پہلی آیات میں نصاریٰ کے عقائدِ فاسدہ تثلیث اور الوہیت مسیح وغیرہ کا رد تھا اور پیشتر عیسائی ان خیالات باطلہ پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے علم وقدرت سے استدلال کیا کرتے ہیں۔ علم سے یوں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) غیب کی باتیں بتاتے تھے اور جو کوئی گھر میں کچھ کھا کر آتا اس کو بھی ظاہر کردیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا تھے کہ خدا انسان کی صورت میں ظاہر ہوا تھا یا خدا کے بیٹے تھے کہ جو باپ کی طرح علم مغیبات رکھتے تھے۔ قدرت سے اس طرح پر کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے ٗ کوڑھیوں اندھوں کو تندرستی دیتے تھے ہوا کو ڈانٹتے اور جنوں کو نکالتے تھے۔ یہ بھاری کام انسان کے نہیں اس سے بھی معلوم ہوا کہ وہ خدایا اس کے بیٹے تھے۔ گرچہ پہلی آیتوں میں الحی القیوم فرما کر ان شبہات کو رد کردیا تھا لیکن یہاں تتمہ کے طور پر اور بھی ان شبہات کا دلائلِ قطعیہ سے رد کردیا۔ پہلے شبہ کا جواب ان اللّٰہ لا یخفی الخ میں دیا کہ خدا کی شان علام الغیوب ہونا ہے۔ سو یہ بات سوائے ذات باری اور کسی کو حاصل نہیں اور جو کسی نبی یا فرشتہ کو کوئی بات معلوم ہو تو وہ بھی اس کی طرف کا فیضان ہے اور جو عیسیٰ خدا ہوتے تو ضرور ان پر بھی کوئی بات مخفی نہ ہوتی۔ حالانکہ ان پر بہت سی باتیں مخفی تھیں۔ چناچہ انجیل لوقا کے چوتھے باب میں لکھا ہے کہ یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یرون سے پھرا اور روح کی رہنمائی سے بیابان میں گیا جب غیر کی رہنمائی ہوئی تو علام الغیوب کہاں رہا ؟ علاوہ اس کے اسی کتاب کے آٹھویں باب میں ہے کہ ایک عورت نے کہ جس کا بارہ برس سے خون جاری تھا چپکے سے آکے پیچھے سے مسیح کی پوشاک چھو لی جس سے اس کا خون بند ہوگیا مگر مسیح کو وہ نہ معلوم ہوئی۔ لوگوں سے پوچھا آخر اس عورت نے اظہار کیا اور بہت سے مقامات سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ دوسرے شبہ کا جواب ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء میں دیا کہ خدا قادر مطلق ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات کب حاصل تھی ٗ وہ خدا سے دعا مانگتے تھے۔ چناچہ اسی انجیل کے چھٹے باب 12 درس میں ہے کہ (وہ مسیح) پہاڑ پر دعا مانگنے گیا اور خدا سے دعا مانگنے میں رات کاٹی۔ اس کے علاوہ بقول نصاریٰ جب ان کو سولی دینے یہود لے چلے اور سولی پر چڑھا دیا تو انہوں نے خدا سے فریاد کرنی شروع کی کہ مجھے کہاں چھوڑ دیا اور بڑی سختی سے چیخ چیخ کر جان دی۔ جیسا کہ انجیل متی کے 27 باب میں مذکور ہے۔ اور نیز ھوالذی یصورکم الخ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) خدا ہوتے تو وہ عورت کے رحم میں آکر آدمی کی شکل کیوں قبول کرتے۔ خدا تو اوروں کی شکلیں رحم میں بناتا ہے۔ اس کے بعد پھر کلمہ توحید کا اعادہ کرتا ہے لا الہ الا ھو العزیز الحکیم اس میں بھی لفظ عزیز سے قدرت کاملہ کی طرف اور حکیم سے علم حقیقی کی طرف اشارہ ہے۔ جب نصاریٰ کو دلائلِ عقلیہ سے عاجز کردیا جاتا ہے تو وہ اس مسئلہ میں کہنے لگتے ہیں کہ کتب سماویہ میں ان کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اور خدائی کے الفاظ بھی ان کی نسبت بولے گئے ہیں اور قرآن میں بھی ان کو روح اللہ و کلمۃ اللہ کہا ہے تو ہم اس بات کو عقل و ادراک کے احاطہ سے باہر جان کر صرف کلام الٰہی کا اتباع کرکے خدا اور اس کا بیٹا کہتے ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ سے بھی عیسائیوں نے یہی تقریر کی تھی اور اب بھی عاجز آکر یہی کہا کرتے ہیں۔ اس کا جواب خدا تعالیٰ نے ان جملوں میں دیا ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن ام الکتاب واخر متشابہات کہ خدا کے کلام میں وہ آیات (کہ جن پر احکام شریعت اور امور اخلاقیہ اور تذکیرِ آخرت کا مدار ہوتا ہے جن کو ام الکتاب یعنی اس کی بنیاد کہتے ہیں) ‘ صریح اور کھلی کھلی ہوتی ہیں اور کہیں کسی رمز اور مصلحت سے ایسے جملہ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے کئی معنی اور پیچیدہ مطلب ہوتا ہے اور اس کلام کا دوسراپہلو بھی ایک پہلو کا ہمسر ہوتا ہے جن عبارات سے ان کا استدلال ہے وہ از قسم متشابہات ہیں۔ ابن کا لفظ حقیقی بیٹے پر بھی بولا جاتا ہے اور پیار میں نوکر اور غلام اور بندہ کو بھی کہہ دیتے ہیں اور اس کے برعکس لفظ خداوندذات باری پر اور بادشاہ اور ذی مرتبہ لوگوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ پس جو کجرو گمراہ لوگ ہوتے ہیں وہ ان کی تاویل اپنی خواہش کے موافق کرکے ایک مطلب گھڑ لیتے ہیں جیسا کہ عیسائی اور جو اہل کتاب اور باخدا ہیں وہ ان ظاہر الفساد معنی کو ترک کرکے اس کلام کی اصلی مراد کو خدا کے سپرد کردیتے ہیں کہ اس کو وہی جانتا ہے اور یہ بات کتب سابقہ ہی پر منحصر نہیں بلکہ قرآن میں جو اے نبی ! آپ پر نازل ہوا ہے اس میں یہی بات 1 ؎ ہے۔ پھر ان عقائدِ فاسدہ کو ان متشابہات سے ثابت کرنا اور وہ معنی لینا کہ جو دیگر آیات کے برخلاف ہیں صریح گمراہی ہے یا یوں کہو قیوم کے لئے دو باتیں ضرور ہیں۔ اول مصالح جسمانیہ کا پورا کرنا شکل و صورت بنانا اس کو ھوالذی یصورکم میں بیان کیا۔ دوم مصالح روحانیہ اعنی علم والہام سے بہرہ ور کرنا اس کو ھوالذی انزل الخ میں بیان کیا۔
Top