Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 5
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِؕ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَخْفٰى : نہیں چھپی ہوئی عَلَيْهِ : اس پر شَيْءٌ : کوئی چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں
اللہ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں
تفسیر آیت 5، 6: قیام عدل پر صفات الٰہی سے استدلال : اوپر والی آیت میں کتاب الٰہی کے مخالفین یا بالفاظ دیگر عدل و قسط کے ہادمین کے لیے جو سزا مذکور ہوئی ہے یہ اس کی دلیل ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا کی اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے وہ بیخبر رہتا ہے۔ اس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رہتی، خواہ وہ بڑی ہو یا چھوتی، اور خواہ زمین پیش آئے یا آسمانوں میں، خدا کا علم ہر چیز اور ہر جگہ کو محیط ہے اور محیط کیوں نہ ہو، اسی نے تو سب کو پیدا کیا اور وہی ہے جو رحموں کے اندر صورت گری فرماتا ہے تو جس نے پیدا کیا اور جس نے صورت گری فرمائی، کیا وہ بھی بیخبر ہوسکتا ہے الا یعلم من خلق (کیا جس نے پیدا کیا وہ بھی نہ جانے گا) اس کے بعد توحید اور خدا کی صفات میں سے عزیز اور حکیم کا حوالہ دیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ محیط کل علم رکھنے والی ہستی اگر قیام عدل و قسط کا اہتمام نہ کرے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ اس کو عزت وقدرت حاصل نہیں ہے یا عزت وقدرت تو حاصل ہے لیکن اس کو اپنے کاموں میں کسی حکمت و مصلحت کی کوئی پروا نہیں، بس ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے، خیر ہو یا شر، ظلم ہو یا انصاف اس سے اسے کچھ بحث نہیں۔ دونوں ہی چیزیں اس کی نظر میں یکساں ہیں۔ یہ خیال بالبداہت باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی، اسے یہ چیز یہ قدرت بھی حاصل ہے اور اس کے ہر کام میں عدل و حکمت بھی ہے اور ساتھ ہی وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہوے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں سے انتقام نہ لے گا جو اللہ کی اس کتاب کا انکار کریں گے جو اس نے دنیا میں از سرِ نو حق وعدل کے آثار و اعلام کو اجاگر کرنے کے لیے نازل فرمائی ہے۔
Top