Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 82
فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
فَمَنْ : پھر جو تَوَلّٰى : پھر جائے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی ھُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
پھر جو اس (مضبوطی اقرار) کے بعد پھرجائیں تو وہی نافرمان ہیں۔
ترکیب : بما کنتم صفت ‘ ربانیین کی اور ممکن ہے کہ رب سببیہ ای ہوکونوا بہذا السبب تب یہ کان سے متعلق ہوگا اور ما مصدریہ اے بتعلیمکم الکتاب۔ لما اتینکم اگر بکسرلام پڑھا جاوے تو یہ لازم یا اخذ سے متعلق ہوگا ای اخذ لہٰذا المعنی مگر مضاف محذوف ہوگا ای لرعایۃ ما اتیتکم یا میثاق سے متعلق ہوگا۔ ای یو ثقنا علیہم لذلک اور ما یا موصولہ موصوفہ ہوگا اور عائد محذوف اس سے من کتاب حال ہوگا اور جو لام کو بالفتح پڑھا جاوے تب ما بمعنی الذی مبتداء ہوگا اور لام تاکید قسم کے لئے ہوگا اور خبر یا من کتب و حکمۃ ہوگی یا لتومنن بہ اور یا ما شرطیہ اور لام قسم کے لئے ہے اور لتؤمنن اس کی شرط اور لام جواب قسم میں واقع ہے اور بعض نے لما بالتشدید پڑھا ہے جو ظرف زماں ہے۔ تفسیر : جب عیسائی الوہیت مسیح اور تثلیث وغیرہ عقائدِ فاسدہ میں ہر طرح سے ملزم قرار دیے جاتے ہیں تو عاجز ہو کر یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ باتیں گو دلائلِ عقلیہ سے ثابت نہیں مگر نقل سے ثابت ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے تئیں خدا اور خدا کا بیٹا کہا ہے اور وہ کلمات بھی ذکر کئے ہیں کہ جن سے ان کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے اور روح القدس کا بھی شریک الوہیت ہونا پایا جاتا ہے۔ ان کے فرمانے سے ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ وہ بشر تھے اور ان کو کتاب و نبوت سے سرفرازی ہوئی تھی۔ پھر ایسا برگزیدہ بشر کسی کو حکم دے سکتا ہے کہ بجائے خدا کے مجھ ہی کو خدا سمجھ کے پوجو ؟ ہرگز نہیں وہ یہی حکم دیتا ہے کہ تم اپنی کتاب کی تعلیم و تدریس کے موافق ربانی یعنی رب پرست یعنی رب کو ماننے والے خدا پرست ہو رہو نہ وہ یہ حکم دے گا کہ تم ملائکہ روح القدس اور انبیاء کو رب بنا لو۔ ان کی پرستش کرو ٗ کیا وہ تم کو اس کے بعد کہ تم مسلمان خدا کے فرمانبردار موحد تھے ‘ کتاب کی تعلیم و تدریس کرتے تھے کفر کا حکم دے سکتا ہے۔ ہرگز نہیں یہود و نصاریٰ اپنے ہادیوں کی تعلیم اور ان کی کتابوں کے برخلاف خدا پرستی چھوڑ کر انبیاء و ملائکہ پرستی کیا کرتے تھے۔ ان پر الزام دیا جاتا ہے کہ یہ تمہارے انبیاء نے ہرگز نہیں فرمایا تھا۔ اس کے بعد نبی آخر الزماں ﷺ کا جو وہ انکار کرتے تھے اس کی بابت ان پر سرزنش کی جاتی ہے کہ تم اس عہد کو بھی تو یاد کرو جو تم سے آنے والے انبیاء کی بابت لیا گیا تھا۔ اس وقت تم کو کتاب اور حکمت دی گئی تھی کہ جب تمہارے پاس کوئی رسول اصول ملت کا مصدق آئے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد بھی کرنا اس پر خدا نے تم سے پوچھ بھی لیا تھا کہ تم کو اقرار ہے اور تم اس پر میرے عہد کو قبول کرتے ہو ؟ تم نے کہہ دیا تھا کہ ہم نے اقرار کرلیا تب خدا نے فرمایا تھا کہ دیکھو تم بھی گواہ رہو اور میں بھی گواہ ہوں۔ باوجود اس عہد مؤکد کے پھر تم نے کیا کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور ان کے بعد جبکہ تلافیِ ما فات کا وقت باقی تھا ٗ محمد ﷺ کا انکار کیا اور اپنے عہد سے پھرگئے۔ پھر جو اپنے ایسے عہد سے پھرے تو وہ فاسق نہیں تو اور کون ہے ؟ اس عہد کا پتا توریت سفر استثناء سے بھی لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کو جمع کرکے موسیٰ نے آنے والے نبی کی بابت وصیت کی تھی۔
Top