Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 82
فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
فَمَنْ : پھر جو تَوَلّٰى : پھر جائے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی ھُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تو جو اس کے بعد پھرجائیں وہ بدکردار ہیں،
فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذَالِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ، اس ارشاد کا مقصود اہل کتاب کو تنبیہ کرنا ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ رہے ہو محمد ﷺ کا انکار ان کی مخالفت کرکے اس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہو جو تمہارے انبیاء سے لیا گیا تھا لہٰذا اب تم ایمان کی حدود سے نکل چکے۔ یعنی اللہ کی اطاعت سے خارج ہوگئے۔ اگر نبی ﷺ کی بعثت انبیاء کے زمانہ میں پوتی تو ان سب کے نبی آپ ہی ہوتے اور وہ تمام انبیاء آپ کی امت میں شمار ہوتے اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی شان محض نبی امت کی نہیں بلکہ نبی الانبیاء کی بھی ہے، چناچہ ایک حدیث میں آپ خود ارشاد فرماتے ہیں۔ اگر آج موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے علاوہ چارہ کار نہیں تھا۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو وہ بھی قرآن حکیم اور تمہارے نبی ہی کے احکام پر عمل کریں گے۔ (معارف، ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ اور شاملہ ہے اور آپ ﷺ کی شریعت میں سابقہ تمام شریعتیں مدغم ہیں اس کی تائید آپ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے آپ کا ارشاد ہے۔ بُعِثْتُ اِلَی الناسِ کافَّۃٌ۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ آپ کی نبوت آپ کے زمانہ سے قیامت تک کے لیے ہے صحیح نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی نبوت کا زمانہ اتنا وسیع ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے شروع ہوتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں ” کُنْتُ نَبِیّاً وَآدَم بین الروحِ والجسدِ “ محشر میں شفاعت کبریٰ کے لیے پیش قدمی کرنا اور تمام بنی آدم کا آپ کے جھنڈے تلے جمع ہونا اور شب معراج میں بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت کرانا حضور ﷺ کی اسی سیادت عامہ اور امامت عظمیٰ کے آثار ہیں۔
Top