Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ١ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا
وَمَنْ
: اور جو
يَّقْنُتْ
: اطاعت کرے
مِنْكُنَّ
: تم میں سے
لِلّٰهِ
: اللہ کی
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَتَعْمَلْ
: اور عمل کرے
صَالِحًا
: نیک
نُّؤْتِهَآ
: ہم دیں گے اس کو
اَجْرَهَا
: اس کا اجر
مَرَّتَيْنِ ۙ
: دوہرا
وَاَعْتَدْنَا
: اور ہم نے تیار کیا
لَهَا
: اس کے لیے
رِزْقًا كَرِيْمًا
: عزت کا رزق
اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو دو بار اس کا بدلہ دیں گے اور اس کے لیے عزت کی روزی بھی تیار کر رکھی ہے۔
ترکیب : ومن شرطیۃ یقنت بالیاء رعایۃ للفظ من وبالتاء رعایۃ لمعنا ھا۔ تعمل معطوف علی یقنت نوتہا، جوابھا، واعتدنا، معطوف علی نوء تھا کا حد اصل احد وحد بمعنی الواحد ثم وضع فی النفیء العام مستوھا فیہ المذکر والمونث والواحد والکثیر والمغنی لستن کجماعۃ واحدۃ من جماعات النساء فی الفضل، اھل البیت منصوبا علی النداء والمدح من آیات بیان لمایتقی والحکمۃ معطوف علیٰ آیات اللہ۔ تفسیر : اس آیت کے متعلق یہ بات باقی رہ گئی، وہ یہ کہ علماء کی اس بارے میں بحث ہے کہ یہ اختیار کیا، تفویض طلاق تھی کہ نفس اختیار سے طلاق واقع ہوجاتی یا نہیں ؟ حسن اور قتادہ اور اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ یہ بات نہ تھی، بلکہ اس بات میں اختیار دیا تھا کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو آؤ طلاق لے لو یا آخرت کو منظور کرتی ہو، خود طلاق لے لینے میں بھی اختیار نہ دیا تھا۔ بدلیل قولہ تعالیٰ فتعالین امتعکن و اسرحکن سراحا جمیلا اور عائشہ ؓ و مجاہد و عکرمہ و شعبی و زہری و ربیعہ وغیرہم علماء کہتے ہیں کہ ان کو ازخود طلاق لے لینے میں بھی اختیار دے دیا تھا۔ یہاں تک کہ جو بیوی یہ کہہ دیتی کہ میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو بغیر آپ کے طلاق دینے کے اس پر طلاق پڑجاتی۔ پہلا قول بہت ٹھیک ہے۔ مسئلہ جو کوئی اپنی بیوی کو اختیار دے دے کہ خواہ تو مجھے اختیار کرلے، خواہ طلاق لے لے، پس اگر وہ اپنے خاوند کو اختیار کرلے تو جمہور کے نزدیک طلاق نہیں پڑتی، مگر زید بن ثابت اور علی ؓ کا قول ہے کہ زوج کے اختیار کرلینے پر بھی ایک طلاق بائن پڑجاوے گی اور یہی قول حسن اور لیث اور خطابی اور نقاش کا ہے جو اس نے امام مالک (رح) سے نقل کیا ہے۔ قوی اول بات ہے، کیونکہ صحیحین میں عائشہ ؓ کا قول مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو اختیار دیا لیکن ہم نے حضرت ﷺ کو اختیار کرلیا، پھر اس سے ہم پر کوئی طلاق نہ واقع ہوئی اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے کہ محض اختیار دینے سے طلاق واقع ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اگر عورت نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو جمہور کے نزدیک طلاق پڑجاوے گی، مگر عمرو ابن مسعود و ابن عباس ؓ و ابن ابی لیلیٰ اور ثوری اور شافعی (رح) یہ کہتے ہیں کہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور حضرت علی ؓ اور امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں، ایک طلاق بائن پڑے گی اور امام مالک (رح) کا بھی اسی طرف میلان ہے۔ اس کے بعد ازواج مطہرات کے لیے اور حکم سناتا ہے یا نساء النبی من یات منکن بفاحشہ مبینۃ الخ کہ اے نبی ﷺ کی بیویو ! جو کوئی تم میں سے صریح گناہ کرے گی تو دو چند عذاب دی جاوے گی اور یہ بات اللہ پر کچھ مشکل نہیں۔ فاحشہ مبینۃ زنا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی بیویوں کو اس سے محفوظ و معصوم رکھا ہے اور ان کو پاک اور طاہر کیا تھا، پس یہ صرف تہدید ہے۔ جیسا کہ لئن اشرکت لیحبطن عملک ہے۔ یہ شرط ہے اور شرط وقوع کی مقتضی نہیں۔ بعض کہتے ہیں فاحشہ کا لفظ جب معرفہ ہو کر مستعمل ہوگا تو اس سے مراد زنا ہوگی یا لواطت اور جب نکرہ ہو کر مستعمل ہوگا تو اس سے مراد ہر ایک قسم کا گناہ اور جو اس کی نعت بھی آوے گی۔ جیسا کہ اس جگہ تو اس سے مراد خاوند کی نافرمانی اور سرکشی۔ یضاعف لہا العذاب گناہ کوئی کرے، گناہ ہے، مگر پھر بھی فرق ہے ایک عالم اس کی برائی سے واقف ہو کر کرے، ایک جاہل کرے دونوں میں فرق ہے۔ نبی ﷺ کی بیویاں بڑے رتبہ کی تھیں اور جو کوئی بلند مرتبہ ایسا کام کرے، اس کو دو چند سزا ہے۔ اس سزائے دو چند سے مراد عذاب آخرت ہے کہ وہاں دو چند عذاب ہوگا (مقاتل) ابن جریر کہتے ہیں۔ معاذ اللہ اگر ان سے یہ خطا سرزد ہوتی تو دو بار حد ماری جاتی، جیسا کہ لونڈی کی بہ نسبت آزاد عورت کو زیادہ حد ماری جاتی ہے اور عذاب سے مراد حد ہے۔ کماقال ولیشہد عذابھما طائفۃ من المومنین ومن یقنت منکن الخ القنوت الطاعۃ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گی اور نیکی کرے گی تو اس طرح اس کو دو چند اجر ملے گا، کیونکہ وہ تمام عورتوں سے اشرف ہے، چناچہ خود اللہ ان کی بزرگی بیان فرماتا ہے یا نساء النبی لستن کا حد من النساء کہ اے نبی کی بیویو تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو، تمہارا مرتبہ بلند ہے۔ آنحضرت ﷺ پر اس موقع میں مخالفین اسلام یہ اعتراض کیا کرتے ہیں اور حضرت ﷺ کی سیرت پاک پر دھبہ لگایا کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے کثرت ازواج پر اعتراض اور اس کا جواب : قولھم محمد باوجود اس دعوے کے کہ میں خاتم المرسلین ﷺ ہوں عورتوں کی طرف بڑے حریص تھے۔ قانون قدرت کے مطابق ہر مرد کو ایک عورت کافی ہے جو علاوہ حاجت انسانی پورا کرنے کے لیے اس کی ضروریات خانہ داری کو بھی بخوبی انجام دے سکتی ہے، پھر متعدد عورتیں رکھنا ایک قسم کی شہوت پرستی ہے جو اولو العزم لوگوں کی شان کے بالکل مخالف ہے۔ محمد ﷺ نے اور مسلمانوں کے لیے تو چار عورتوں کی حد لگادی اور اپنے لیے کوئی حد ہی نہیں رکھی اور ایک وقت نو بیویاں اور کئی ایک حرمین موجود تھیں اور ان کے لیے تو نکاح کرنے کی بھی قید تھی اور اپنے لیے تو یہ بھی قید نہ رکھی بلکہ جیسا کہ اگلی آیتوں میں آتا ہے جو کوئی عورت نبی کو اپنا نفس بخش دے 1 ؎ تو وہ نبی کو حلال ہے۔ وامراۃ مؤمنۃ ان وھبت نفسہا للنبی اور خود زید کی بیوی کو بغیر نکاح کے رکھ لیا اور کہہ دیا کہ میرا نکاح آسمان پر فرشتوں نے پڑھادیا ہے اور بھی ایسے واقعات گزرے ہیں۔ چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ نے ایک عورت کا شہرئہ حسن سن کر کسی کو بھیج کر اس کو بلایا اور عائشہ ؓ کے ڈر سے اس کو باہر باغ میں اتارا اور جب آپ نے اس پر ہاتھ دراز کیا تو اس نے کہا، میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، یعنی آپ کو پسند نہیں کیا۔ پھر آپ کو برا معلوم ہوا، جس لیے اس سے صحبت نہ کی، اس کے علاوہ اور مسلمانوں کو تو عورتوں میں عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا کہ باری سے ہر ایک کے پاس رہا کریں اور اپنے لیے یہ بھی فرض نہ تھا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں آتا ہے ترجی من تشا منہن وتو وی الیک من تشاء اسی لیے عائشہ جل کر کہتی ہیں کہ کیا کوئی عورت اپنا نفس بھی ہبہ کرتی ہے اور جب یہ آیت ترجی اتری تو کہا کہ اللہ اے محمد ! تیری خواہشوں کو بہت جلد پوری کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اس لیے محمد ﷺ کی بیویوں میں بڑا جھگڑا رہا کرتا تھا، چناچہ ایک بار سب عورتیں آپ سے چمٹ گئیں، ایک کہتی تھی مجھ سے صحبت کر، دوسری کہتی تھی مجھ سے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور حجروں کے باہر ابوبکر ؓ نے عورتوں کی یہ بےہودہ باتیں سن کر کہا کہ اے محمد ! نماز کو آئیے اور ان کے منہ میں خاک ڈالئے۔ اس بات کو بھی بخاری نے نقل کیا ہے توبہ توبہ یہ شہوت پرستی اور یہ دعویٰ اور لطف یہ کہ اتنی تو بیویاں کیں اور اس قدر ان پر سخت احکام مقرر کئے، اس پر روٹی کپڑا مانگنے سے منع کردیا۔ پہلے انبیاء نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت مسیح نے تو سرے سے کوئی بھی عورت نہیں کی اور دنیا میں جس قدر باکمال لوگ آئے ہیں وہ عورتوں سے نفرت ہی کرتے آئے ہیں۔ ان کو شہوت پرستی سے کیا علاقہ ؟ 1 ؎ بغیر گواہ اور مہر کے وہ نبی کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ جواب تحقیقی : اس کا جواب اگر منصف مزاج ذرا بھی انصاف کرے تو سب اعتراض اٹھ جاویں۔ یہ بات تمام اہل تاریخ کے نزدیک مسلم ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مکہ میں عین جوش جوانی کے وقت جو انسانی قوٰی کے موجیں مارنے کا زمانہ ہوتا ہے، ایک بڑھیا عورت سے نکاح کیا، یعنی خدیجۃ الکبری ؓ سے جو حضرت سے عمر میں بہت زیادہ تھیں، وہی پاک باز عورت آپ کو غار حرا کے خلوت خانہ میں دوچار روز کا کھانا پانی دے آیا کرتی تھیں، ان کے انتقال کے بعد ایک اور عورت عمر رسیدہ سیاہ فام سے نکاح کیا جن کا نام حضرت سودہ ؓ تھا۔ باون برس کی عمر تک جو انتہا ئِ جوش جوانی کا موقع تھا یکے بعد دیگر انہیں بیویوں کے ساتھ زندگانی بسر کی، باوجودیکہ آپ خاندانی تھے۔ نہایت خوبصورت بھی تھے اور قریش آپ کو حسین مہ جبین عورتوں کا لالچ بھی دیتے تھے اور عرب کے دستور کے موافق مکہ جو آپ کا وطن تھا، متعدد حسین نوجوان عورتوں کا میسر آجانا کچھ بھی مشکل نہ تھا، کم مرتبہ کے آدمیوں کے پاس مکہ میں متعدد عورتیں رہتی تھیں اور یہ بات عرب کے نزدیک کچھ معیوب بھی نہ تھی، مگر آپ نے مطلق توجہ بھی نہ فرمائی۔ ہجرت سے کچھ دنوں آگے صدیق اکبر ؓ نے بڑی التجا کے ساتھ اپنی دختر نیک اختر عائشہ ؓ سے جو چھ برس کی لڑکی تھی، صرف نکاح کردیا تھا۔ جو بمنزلہ منگنی کے تھا، رخصت نہ کی تھی اور کرتے بھی تو یہ نہایت صغیر سن تھیں۔ مدینہ میں آکر جہاں ہر طرف سے مصیبت کے دروازے کھل گئے اور تمام عرب دشمن ہوگیا۔ ادھر مہاجروں کی فکر بھی آپ ہی کے سر پر پڑگئی تھی۔ عائشہ ؓ کو جوان ہونے پر رخصت کیا، اب اس پردیس میں اور اس مصیبت کے زمانہ میں اور اس تنگدستی میں کہ ہفتے کے ہفتے بےروٹی کے گزر جاتے تھے، کھجور کے چند دانوں اور پانی پر بسر اوقات ہوتی تھی اور اس عمر میں کہ پچاس سے تجاوز ہوگئی، جوانی کے زور جاتے رہے۔ بڑھاپا آگیا، کون دانشمند کہہ سکتا ہے کہ آپ نے اتنی بیویاں شہوت پرستی کے لیے کی تھیں ؟ اور معاشرت کا طریقہ نفرت انگیز اختیار کیا تھا ؟ پردیس میں تو اپنی عزت بڑھانے کے لیے خصوصاً اس قوم میں جاکر جو مددگار اور خاص مرید ہوں، کوئی نفرت کی بات ہو تو لوگ چھوڑ دیا کرتے ہیں کہ مبادا لوگ بداعتقاد نہ ہوجاویں اور یہ ظاہر ہے کہ آپ سے کوئی انصار و مہاجر بداعتقاد نہ ہوں، پس عقل سلیم تاریخی واقعات پر نظر کرکے صاف صاف کہہ دے گی کہ اتنی بیویاں اور ان کے ساتھ یہ برتاوا شہوت پر مبنی نہ تھا اور جو ہوتا بھی تو یہاں آکر اس قدر عورتوں نے کیوں ازواج مطہرات میں داخل ہونے کی رغبت کی، مکہ میں جوانی کے وقت نہ کی ؟ معلوم ہوا کہ یہ اور بات تھی وہ یہ کہ حضرت ﷺ جس طرح خاتم المرسلین بنائے گئے تھے، اسی طرح آپ کے دین میں حلت و حرمت ‘ طہارت و نجاست ‘ مرد و عورت کے سب احکام تھے۔ مردوں میں سے تو علم دین سیکھنے کے لیے ایک جماعت اس کام کی ہو کر در دولت پر آپڑی تھی، جن کو اصحاب الصفہ کہتے تھے، اسی طرح عورتوں کی جماعت بھی اس کام کے لیے پر ضرور تھی کہ وہ عورتوں کو تعلیم دیا کریں۔ خصوصاً وہ مسائل جو عورتوں سے متعلق ہیں اور جن کا ذکر غیر مرد سے سننا شرم کی بات ہے۔ اب یہ جماعت نساء اگر محض شاگردوں کے سلسلہ میں ہوتی۔ اول تو آپ ان اجنبی عورتوں سے وہ شرم کے متعلق مسائل حیض و نفاس غسل و جنابت بیان کرتے شرم کرتے اور وہ بھی ان کے دریافت کرنے سے شرم کرتیں۔ مقصود فوت ہوجاتا۔ دوم شاگردوں کا خلوت و جلوت میں رہنا ضروری بات ہے۔ جو قولاً و فعلاً ہر قسم کی تعلیم پاسکیں اور اگر ایسا ہوتا تو لوگوں کو اجنبی عورتوں کے ساتھ رہنے سے بدگمانی پیدا ہوتی۔ سوم مردوں کی جماعت تعلیم پانے کے وقت صبر اور محنت کشی سے اپنے رزق کافی الجملہ آپ بندوبست کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں تو لکڑیوں کا گٹھ لاکر بیچ سکتے ہیں۔ بخلاف عورتوں ضعیف البنیان کے اس لیے ان کا بندوبست رزق و حاجات بھی حضرت ﷺ ہی کے ذمہ ٹھہرا اس لیے ان تلامذہ کو سلسلہ نکاح میں داخل کرنا پڑا۔ اگر غیر کی بیویاں ہوتیں تو ان کے خاوند ان کو اس قدر مہلت کیوں دیتے اور نیز اس میں یہ بھی مقصود تھا کہ آپ لوگوں کو صفت توکل تعلیم کریں کہ عورتوں کی کج خلقی پر برداشت کرنے کے عرب عادی ہوجاویں جو بےرحمانہ برتاؤ کیا کرتے تھے اور لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوجاوے کہ آنحضرت ﷺ اس عیالداری پر کسی کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ ایک بیوی کرکے سو کا غلام بننا پڑتا ہے اور بہت سی باتوں میں حق سے چشم پوشی کرنی پڑتی ہے، لہٰذا اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان نیک بیویوں کو جو دینی مدرسہ کی طالب علم تھیں اور وجوہ مذکورہ سے بضرورت ان کو سلسلہ زوجیت میں لایا گیا تھا۔ یہ سنادیا یا نساء النبی لستن کا حدٍ من النساء کہ تم اور عورتوں جیسی عورتیں نہیں ہو، تم خالص دین کے لیے اس بیت العلوم میں داخل کی گئی ہو اور اسی لیے وہ زوجیت معمولی سمجھ کر اور عورتوں کی طرح آرائش و تجمل کے سوالات کرکے حضرت ﷺ کو تکلیف دیتی تھیں، ان کو اختیار دیا گیا۔ جس پر وہ سمجھ گئیں، جب یہ بات تھی تو پھر آپ کے اس مدرسہ یا بیت العلم میں داخل ہونے کے لیے کس لیے تعداد مقرر ہوتی ؟ پھر کسی قدر کیوں نہ آویں، بشرط صلاحیت لینا ہی پڑتا تھا اور اسی لیے اس داخلہ کے لیے نکاح کا لفظ خاص نہ ہوا، انفس کے بخشنے اور دیگر امور مقررہ ان کی توسیع کے لیے جائز قرار پانے ضرور ہوئے اور اسی لیے پھر اور گواہوں کی بھی وہبت نفسی میں ضرورت نہ ہوئی اور اس لیے بیویوں کی طرح باری کے ساتھ ان کے پاس رہنا ضروری نہ ہوا، گو آپ اس پر بھی باری سے رہتے تھے اور ان کی اطمینان قلبی کی باتیں ملحوظ رکھتے تھے اور اگر کوئی عورت دور سے آئی ہو اور پھر اس کو مصائبِ دنیا دیکھ کر اس بیت العلم میں داخل ہونا منظور نہ ہوا تو آپ نے داخل نہ کیا اور باغ میں اتارنا کوئی عیب کی بات نہیں۔ رہا عورتوں کا باہمی جھگڑا سو یہ ان کی جبلی بات ہے اور معاذ اللہ اس شب میں وہ پاک باز بیویاں امر خاص کے لیے آپ سے خواستگار نہ تھیں۔ بات یہ تھی کہ آپ ایک کے گھر تشریف لے گئے، حضرت ﷺ کے انفاس متبر کہ کو ہر ایک غنیمت جانتی تھیں اور بھی آگئیں، گھر والے کو ناگوار گزارا جو ایک طبعی بات ہے، اس پر باہم کچھ قیل و قال تھی۔ جس کو سن کر صدیق اکبر ؓ اس وجہ سے کہ ان کی صاحبزادی بھی ان میں شامل تھیں۔ عورتوں پر بزرگانہ طور پر خفا ہوئے۔ اصل بات یہ تھی، اب مخالف اس کو جس پیرایہ میں چاہے ڈھالے۔ جواب الزامی : حضرت سلیمان اور دائود ( علیہ السلام) کی بیویاں اور حرمین تو سینکڑوں تھیں، پھر عیسائی اور یہودی ان کی کتابوں کو الہامی مانتے ہیں، اسی طرح ہنود کے ہاں کرشن جی کے چودہ سو گوپیاں ناچا گایا کرتی تھیں، اب خواہ اس کو آریہ لوگ بھجن کہیں یا کچھ اور ہم کچھ نہیں کہتے۔ رہا تعدد ازواج کا اعتراض سو اس کا جواب کئی بار ہوچکا کہ انسانی ضرورتیں بعض اوقات ایک بیوی سے پوری نہیں ہوسکتیں اور پہلی کا بغیر قصور چھوڑ دینا انسانی مروت کے خلاف ہے اور فرض کرو مرض یا کسی وجہ سے اولاد جننے کی اس میں صلاحیت نہیں، پس اسلام نے بضرورت تعدد ازواج کی اجازت اور وہ بھی مشروط دی کہ عدل پورا ہو۔ آمدم برسر مطلب، اس تمہید کے بعد پھر ازواج مطہرات کو چند احکام کی تعلیم دیتا ہے، ان اتقیتن اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو۔ یہ جملہ اس لیے فرمایا کہ صرف اسی بات پر بھروسہ نہ کرلینا کہ ہم نبی کی بیویاں ہیں، بلکہ یہ فضیلت تقویٰ کی وجہ سے ہے، چناچہ ازواج مطہرات ہمیشہ زیور تقویٰ سے آراستہ تھیں۔ بیشک اللہ نے مسلمان مردوں اور عورتوں اور ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کے لیے اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردار عورتوں کے لیے اور راست باز مردوں اور عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں کے لیے اور خدا سے ڈرنے والے مردوں اور عورتوں اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات کرنے والی عورتوں اور روزہ دار مردوں اور روزہ دار عورتوں اور پاک دامن مردوں اور پاک دامن عورتوں کے لیے اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش کا (صلہ) اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے نہ کسی ایماندار مرد اور نہ کسی ایماندار عورت کو یہ لائق ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو ان کو اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا اور (یاد کرو) جبکہ آپ اس کو کہ جس پر اللہ نے احسان کیا اور آپ نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اب اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور اپنے دل میں وہ بات مخفی رکھتے تھے کہ جس کو اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا اور لوگوں سے ڈر رہے تھے اور ڈر نا تو زیادہ اللہ ہی سے چاہیے، پھر جب زید اس عورت سے اپنی غرض پوری کرچکا تو اس کا ہم نے آپ سے نکاح کردیا تاکہ ایمانداروں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں ممانعت نہ رہے، جبکہ وہ ان سے بےتعلقی کرچکیں اور اللہ کا حکم ہو کر رہتا ہے۔ نبی پر اس بات میں کچھ بھی ممانعت نہیں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردی ہے۔ جیسا کہ اللہ کا پہلے لوگوں میں دستور تھا (ان پر نکاح کرنے میں کوئی ممانعت نہ تھی) اور اللہ کا حکم مقرر ہوچکا تھا۔ وہ پہلے لوگ جو اللہ کا پیام پہنچاتے رہے اور اللہ سے ڈرتے رہے اور اللہ کے سوا اور کسی سے نہ ڈرتے تھے اور کافی ہے، اللہ حساب لینے کو۔ ترکیب : اعد اللہ الجملہ خبران۔ والخیرۃ مایتخیرو جمع الضمیر الاول لعموم مومن و مؤمنۃ لانھما فی حیز النفی و جمع الضمیر فی من امرھم التعظیم واللہ والواو واللحال سنۃ اللہ نصبہ علی المصدر ای سن ذلک سنۃ الذین یبلغون وصفۃ للذین خلوا ومدح لھم منصوب اومر فوع۔ الوطرا الحاجۃ۔ تفسیر … پہلا حکم : حضرت ﷺ کی حیات میں بھی اور آپ کے بعد بھی، جواب شرط کا محذوف ہے، فلستن کا حد من النساء اس پر دلالت کرتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا جواب فلا تخصنعن بالقول لوگوں سے جو بات چیت کرنے کا اتفاق ہو تو بات میں نرمی اور لگاوٹ نہ کرو۔ فیطمع الذی فی قلبہ مرض تاکہ ناپاک آدمی کہ جس کے دل میں شہوت اور بدکاری کا مرض ہے۔ طمع نہ کرے۔ وقلن قولا معروفا کھری بات کہو، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو عورتیں مہین مہین باتیں اور بڑے اخلاق سے اور ہنس ہنس کر کیا کرتی ہیں۔ خواہ وہ پاک اور صاف دل ہی کیوں نہ ہوں، مگر ناپاک آدمی کے دل میں گدگداہٹ اور تحریک باطل پیدا کردیتی ہیں۔ یہ ایک حکم تھا۔ دوسرا حکم : دوسرا حکم وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی۔ وقرن اہل مدینہ اور عاصم نے وقرن بفتح قاف پڑھا ہے اور لوگوں نے بکسر قاف پہلی قرأت کے موافق یہ معنی ہوں گے۔ افتر رن ای الزمن بیوتکن من قولھم قررت بالمکان اقر قرائا فحذفت الراء الاولیھی عین الفعل لثفل التضعیف ونقلت حرکتھا الی القاف کما فی ظللت ظلت وعلی الثانی فقیل ھو من قررت اقررت اقرمعناہ اقررن بکسر الراء فحذفت الاولی ونقلت حرکتھا الی القاف وقیل ھومن الوقارمن قولھم و قرفلاں یقرو قوراً اذا سکن واطمئن فھو امر کعدن من الوعد وصلن من الوصل یعنی اپنے گھروں میں بیٹھی رہا کرو، بغیر ضرورت باہر نہ جایا کرو۔ پردہ کا حکم : یہاں سے پردہ فرض ہوا۔ سامنے ہونے کی جیسا کہ پہلے جاہلیت میں دستور تھا۔ ممانعت ہوگئی، جیسا کہ اخیر جملہ میں فرماتا ہے۔ ولاتبرجن تبرج اظہار زینت اور مواقع زینت، مجاہد کہتے ہیں کہ پہلے عورتیں لوگوں کے سامنے آیا جایا کرتی تھیں۔ پس یہی تبرج جاہلیت ہے۔ (ابن کثیر) جاہلیت اولیٰ کے معنی ابن عباس ؓ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد ﷺ کے زمانہ کو جاہلیت اولیٰ کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں۔ نوح و ابراہیم ( علیہ السلام) کا درمیانی زمانہ بعض کہتے ہیں۔ موسیٰ و عیسیٰ ( علیہ السلام) کا، مگر ابن عطیہ کا قول بہت صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت اولیٰ سے اسلام سے پہلے کا زمانہ مراد ہے اور اس کو اولیٰ زمانہ اسلام کے لحاظ سے کہا نہ اس لیے کہ کوئی جاہلیت آخری اسلام کا وہ زمانہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ جس میں فسق و فجور رواج پایا گیا۔ ان آیات سے نبی ﷺ کی بیویوں کے لیے بلا ضرورت باہر جانا حرام ہوگیا تھا، ضرورت شرعیہ میں سے حج وعمرہ ہے۔ امت کی بیویوں پر گھر میں رہنا باہر نہ نکلنا، اس آیت سے بعض کے نزدیک واجب ہے، قوی تر یہی ہے کہ پردہ میں رہنا مستحب ہے اور اگر بضرورت باہر جاویں تو برقعہ میں یا ایسے چادرے میں کہ جس سے کوئی ستر کی چیز دکھائی نہ دے۔ یہ پردہ فرض ہے۔ اس میں جو کچھ حکمتیں ہیں، غیر قوموں کی بےپردہ عورتوں کے بیجا حالات دیکھ کر بخوبی سمجھ میں آسکتی ہیں۔ تیسرا حکم : تیسرا حکم واقمن الصلوٰۃ نماز ادا کریں۔ چوتھا حکم : چوتھا حکم واتین الزکوٰۃ زکوٰۃ دیں، اس میں صدقہ و خیرات بھی داخل ہے۔ پانچواں حکم : اس کے سوا اور جس قدر احکام شرعیہ ہیں، ان کو بھی بجا لاویں۔ کما قال واطعن اللہ و رسولہ یہ پانچواں حکم جمیع احکام کو شامل ہے، اس میں حج اور رمضان کے روزے بھی آگئے، مگر نماز اور زکوٰۃ کو تاکید و اہتمام کے لیے جداگانہ بیان کردیا۔ یہ وہ احکام ہیں جو تدبیر المنزل و اخلاق اور معاد اور حسن معاشرت کے اصل الاصول ہیں اور تہذیب و شائستگی کا عطر اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی وجہ بیان فرماتا ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطہیرا کہ اے اہل بیت نبی ! کے گھر والو یعنی بیویو ان احکام سے اللہ تم کو پاک کرنا اور تمہاری ناپاکی دور کرنا چاہتا ہے۔ الرجس الاثم والذنب، میل کچیل ظاہری کے سواء انسان کی اخلاقی بھی میل کچیل ہوتی ہے، جو مکارم اخلاق اختیار کرنے اور ذکر الٰہی اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے دور ہوتی ہے، وہ کسی دریا یا کنویں کے پانی یا کسی مصالح یا صابن سے دور نہیں ہوتی۔ اہل بیت کی تحقیق : اہل البیت کے لغوی معنی گھر والے کے ہیں اور اصطلاح میں خصوصاً عرب کے عرف میں اس لفظ کا اطلاق خاص بیوی پر ہوتا ہے، گو گھر میں بیٹا، بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی بھی ہوتے ہیں اور اسی طرح نوکر چاکر ‘ خادم بھی اور اسی طرح قرآن مجید میں ایک جگہ یہی اہل البیت کا لفظ خاص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی پر بھی مستعمل ہوا ہے۔ اتعجبین من امر اللہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت اور عرب بولتے ہیں، کیف اھلک یعنی گھر والی کی خیریت پوچھتے ہیں۔ ہمارے عرف میں بھی اہل خانہ گھر والی بیوی کو کہتے ہیں۔ اس لیے علمائِ اسلام کا ایک جم غفیر اس کا قائل ہوا ہے کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد آنحضرت ﷺ کی بیویاں ہیں، جس کو قرآنی مذاق کچھ بھی ہے۔ وہ سیاق وسباق میں نظر کرکے اس بات کو جلد تسلیم کرسکتا ہے۔ ابن عباس ؓ و عکرمہ وعطاء و کلبی و مقاتل و سعید بن جبیر اسی کے قائل ہیں۔ عکرمۃ کہتے ہیں، میں اس بات پر مباہلہ کرسکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں، اول میں بھی خطاب نبی کی بیویوں سے ہے۔ کما قال قل لازواجک اور یہاں تک انہی کے متعلق احکام چلے آتے ہیں۔ گھر میں بیٹھنا وغیرہ اور بعد میں بھی انہی کی طرف خطاب ہے۔ واذکرن مایتلی فی بیوتکن اور بیت سے مراد آنحضرت ﷺ کا گھر ہے، جو حضرت ﷺ کی بیویوں کی رہنے کی جگہ ہے، جہاں آپ شب باش ہوتے تھے۔ ابوسعید خدری ؓ و مجاہد وقتادہ اور کل اہل شیعہ یہ کہتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد اس جگہ علی و فاطمہ و حسن و حسین ؓ ہیں، ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عنکم ویطہرکم مذکر کے صیغہ ہیں جو ازواج مطہرات پر اطلاق نہیں کئے جاتے۔ اس کا جواب ان کی طرف سے یہ ہے کہ لفظ اہل کی رعایت سے تذکیر کے صیغے کلام میں آجایا کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی پر اہل البیت کا اطلاق ہوا ہے، وہاں بھی علیکم مذکر کا صیغہ ہے۔ اب فریقین کے وہ دلائل کہ جن سے ہر ایک نے اپنے مطلب کو ثابت کیا ہے، روایات و احادیث و اقوال ہیں، جن کا ہر ایک فریق نے ڈھیر لگادیا ہے۔ پھر ہر ایک نے دوسرے کے راویوں میں کلام کیا ہے اور پھر ہر ایک فریق نے اس کا جواب دیا ہے، اگر اس سب کو نقل کروں تو یہ جلد بھی کافی نہ ہو، اس لیے سب کو ترک کرتا ہوں، مگر فریق ثانی کی ایک حدیث بڑی زور آور ہے۔ جس کو ام سلمہ و عائشہ وواثلہ بن الاسقع ؓ سے بطرق مختلفہ ترمذی و ابن المنذر و حاکم و ابن مرد و یہ بیہقی و ابن ابی حاتم و طبرانی و ابن ابی شبیہ و احمد و مسلم نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، گو اس کے بعض طرق محدثین کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فاطمہ و علی و حسن و حسین ؓ کو ایک سیاہ کمبلی میں لپٹاکر کہ جس کو آپ اوڑھے ہوئے تھے۔ یہ آیت پڑھی اور پھر یہ کہا اللہم ھو لاء اھل بیتی اللہم اذھب عنہم الرجس و طہرھم تطہیرا کہ اے اللہ یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں۔ ان کی ناپاکی دور کردے اور ان کو پاک کردے اور ایک حدیث انہی لوگوں نے یہ بھی روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ فجر کی نماز کو جب مسجد میں جاتے تھے تو فاطمہ ؓ کے گھر پر کھڑے ہو کر یا اہل البیت الصلوٰۃ الصلوٰۃ کہہ کر یہ آیت پڑھتے تھے اور مسلم نے زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ میں تم کو اپنے اہل بیت کے حق میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں، یعنی ان کی مراعات رکھنا زید سے کسی نے پوچھا۔ اہل بیت کون ہیں، کیا حضرت ﷺ کی بیویوں میں ان کے اہل بیت نہیں ہیں ؟ کہا آپ کی بیویاں آپ کی اہل بیت ہیں، لیکن آپ کے اہل بیت وہ لوگ ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے۔ علی اور عقیل اور جعفر اور عباس کی اولاد۔ ان تینوں حدیثوں کو صحیح مان لینا چاہیے، مگر ان سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ خاص علی و فاطمہ و حسنین ؓ ہی اہل بیت ہیں اور حضرت کی بیویاں اہل بیت نہیں ہیں، بلکہ پہلی حدیث تو یہی کہہ رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فاطمہ و علی، و حسن و حسین ؓ کو بھی کمبلی میں لے کر اہل بیت میں شامل فرمایا اور ان کے لیے دعا کی ورنہ کیا اللہ کو معلوم نہ تھا کہ یہی لوگ اہل بیت ہیں ؟ پھر ہؤلاء اہل بیتی کہنے کی کیا حاجت تھی ؟ اور اسی طرح دوسری حدیث سے پایا جاتا ہے اور تیسری حدیث تو ان دونوں کے مخالف ہے، اس کے علاوہ یہ قول زید کا ہے جو جعفر و عقیل علی و عباس کی اولاد ؓ کو اہل بیت کہہ رہے ہیں۔ قول فیصل : یہ ہے کہ دراصل اہل بیت تو ازواج مطہرات ہی ہیں اور ان میں حضرت ﷺ نے اپنے پیارے فرزندوں کو بھی شامل فرمالیا اور کیوں نہیں بال بچے اور بہت قریب کے عزیز و اقارب بھی گھر ہی کے لوگ شمار ہوتے ہیں۔ پس اعتقاد صحیح اور محبت خالص یہی ہے کہ ازواج مطہرات اور ان پاک باز لوگوں کو بھی اہل بیت سمجھ کر ان کا تہ دل سے ادب کرے، جن میں حضرت عائشہ صدیقہ اور فاطمہ زہرا اور حسنین بھی داخل ہیں۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ فائدہ : کیا حضرت علی و جعفر و عقیل و عباس کی اولاد بھی جو سینکڑوں برس کے بعد پیدا ہوئی اور ہوگی، سب اہل بیت ہیں ؟ حقیقت میں اہل بیت اور آل وہی لوگ تھے جو حضرت ﷺ کے سامنے موجود تھے اور ان کی اولاد اور اولاد در اولاد کو جو اہل بیت اور آل نبی کہا جاتا ہے تو مجازاً اور ادباً کس لیے کہ نہ یہ حضرت ﷺ کے گھر میں کبھی رہے ہیں نہ حضرت ﷺ ان کی عیالت کرتے تھے۔ حق بات یہی ہے باقی افراط وتفریط ہے جو تعصب یا فرط محبت پر مبنی ہے۔ چھٹا حکم : واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ ان اللہ کان لطیفًا خبیرا۔ یہ چھٹا حکم ہے کہ اے نبی کی بیویو ! وہ جو تمہارے گھروں میں آیات اللہ اور حکمت الٰہیہ کا درس ہوتا ہے۔ اس کو خوب یاد رکھو لوگوں کو سمجھائو۔ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی جزائِ خیر دے گا، کیونکہ وہ لطیف یعنی مہربان لطف کرنے والا خبردار ہے۔ اس پر تمہاری کوشش مخفی نہیں۔ یہ وہی اصلی حکم ہے کہ جس کے لیے یہ پاک باز باخدا بیویاں مدرسہ علم دینیہ میں داخل کی گئیں اور ان کو نبی کی زوجیت کا شرف عطاء کیا گیا۔ پہلے احکام تو خود ان کی تہذیب و شائستگی اور ادب صحبت اور حسن معاشرت کے لیے تھے اور یہ اس خاص مقصد کے لیے کہ جس کے لیے یہ بیویاں بنائی گئیں۔ آیات اللہ قرآن کی آیات اور حکمت سنت، یہ قرطبی کا قول ہے اور ممکن ہے کہ حکمت سے بھی قرآن ہی مراد ہو یا اسرار شریعت و رموز طریقت جو نبی ﷺ کی صحبت سے وقتاً فوقتاً ان کو حاصل ہوتے تھے اور یہ حاصل ہونا گویا ان پر پڑھا جانا یعنی پڑھ کر سنایا جاتا ہے، چناچہ ازواج مطہرات شب و روز اسی میں مصروف تھیں۔
Top