Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 24
لِّیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
لِّيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے اللّٰهُ : اللہ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ بِصِدْقِهِمْ : ان کی سچائی کی وَيُعَذِّبَ : اور وہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقوں اِنْ شَآءَ : اگر وہ چاہے اَوْ : یا يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ : وہ ان کی توبہ قبول کرلے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
(اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ) تاکہ اللہ بدلے دے سچوں کو ان کے سچ کی بناء پر اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان پر (رحمت اور) توجہ فرما دے بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے
45 کھرے کھوٹے کی تمیز کا انتظام : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے احزاب کا یہ طوفان کھرے کھوٹے کے درمیان تفریق وتمیز کے لیے اٹھنے دیا تاکہ اس طرح اللہ بدلہ دے سچوں کو اور سزا دے منافقوں کو اگر وہ چاہے۔ شان کرم ملاحظہ ہو کہ سچوں کے سچ کے بارے میں ایک ہی بات ارشاد فرمائی کہ اللہ پاک ان کو ان کے سچ کا بدلہ دے جبکہ منافقوں کے بارے میں عذاب کو حتمی نہیں فرمایا بلکہ ان کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا کہ اگر یہ لوگ اب بھی باز آگئے اور انہوں نے صحیح معنوں میں توبہ کرلی تو ان کی توبہ قبول اور گناہ معاف۔ اور اگر نہیں تو ان کو اپنے کئے کا بھگتان بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد میں دراصل منافقوں کو توبہ و استغفار کی دعوت ہے کہ ان کیلئے اب بھی یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر یہ لوگ سچی توبہ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اس کی رحمت انکو اب بھی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے اور یہ لوگ اس کی رحمت و عنایت کے مستحق بن سکتے ہیں۔ نیز اس میں اس امر کی تذکیر و یاددہانی بھی ہے کہ تمام امور کا دارومدار اللہ وحدہ لاشریک کی مشیت پر ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ جھوٹے سہاروں پر تکیہ کرنے کی بجائے صدق دل سے اسی وحدہ لاشریک ہی کی طرف رجوع کریں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top