Tafseer-e-Haqqani - Faatir : 29
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر اسے لوٹائے قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : اسے لوٹائے گا فَاَنّٰى : پس کدھر تُؤْفَكُوْنَ : پلٹے جاتے ہو تم
(اے رسول ! ان سے) پوچھو تمہارے معبودوں میں سے بھی آیا کوئی ایسا ہے کہ جو اول بار پیدا کرکے پھر بار دیگرپیدا کرتا ہو۔ کہہ دیجئے اللہ ہی مخلوق کو اول بار پیدا کرتا ہے پھر وہی ان کو لوٹائے گا پھر تم کدھر بہکے جا رہے ہو
ترکیب : من الخ مبتداء من شرکاء کم خبر جملہ استفہامیہ افمن یہدی مبتدائء احق خبر ھذا القرآن اسم کان ان یفترٰی خبر افترًا من دون اللّٰہ تفصیل مفعول لا نزل محذوف کا۔ تفسیر : قل ھل من شرکائکم یہ دوسری دلیل ابطال شرک پر ہے اس کی تشریح اور آیات میں ہے کہ وہ انسان کو نطفہ سے علقہ پھر مضغہ سے انسان کیونکر بناتا ہے اور آسمانوں اور زمین اور ان کے اندر کی چیزوں کو کس طرح سے بنایا اور پھر کیونکر دوبارہ پیدا کرے گا۔ اس لئے یہاں اجمال اور استفہام پر اکتفا کیا گیا اور جو بات مخالف کے نزدیک ظاہر ہو اور اس میں غور کرنے سے یقین کرسکتا ہو تو فصحاؤ بلغا اس کو بطور استفہام کے ذکر کرتے ہیں جس سے مخاطب کے دل پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ گو وہ اعادہ کے قائل نہ تھے اور حشر و نشر کے منکر مگر جبکہ دلائل سے ثابت کردیا گیا تو گویا اقرار کرلیا اس لئے اس کو بھی ان کے مسلمات میں سے قرار دے کر استفہام میں داخل کیا گیا اور اس کا لطف اہل مناظرہ ہی جانتے ہیں۔ ھل من شرکائکم الخ یہ تیسری دلیل ہے دوسری میں مخلوقات کے پیدا کرنے اور ان کے اعادہ سے استدلال تھا اس میں ان کی ہدایت سے استدلال ہے۔ اس میں مخلوق کے جسم سے استدلال تھا تو یہاں روح سے ہے کیونکہ بینائی شنوائی و دیگر حواس و ادراکات جو روح سے متعلق ہیں ہدایت میں کام آتے ہیں۔ ہدایت کا سلسلہ بڑا وسیع ہے۔ ہر شخص انسان سے لے کر چرند و پرند بلکہ نباتات تک اس سے فیضیاب ہے۔ دنیاوی امور اس کی معاش کی اصلاح مضرات کے دفع کرنے کی تدابیر وہی سجھاتا ہے۔ ہر نوع کو اس کے متعلق ہزارہا علوم اس نے سکھائے ہیں حتیٰ کہ نہایت آبدار کپڑا سا مکڑی بنتی ہے ٗ مکھیاں شہد نکالتی ہیں۔ انسان کیسی کلیں ایجاد کرتا اور کیا کیا بناتا ہے ؟ اسی طرح امور آخرت اور خدا پرستی کی رہنمائی بھی اسی کا کام ہے۔ ہدایت عام ہے۔ وما کان ھذا القرآن الخ ان مطالب عالیہ کے بعد پھر ان کے اس تعجب کو جو انہیں قرآن کی بابت تھا رفع کرتا ہے کہ قرآن کے یہ مطالب عالیہ خود اس کے برحق ہونے کی دلیل بین ہوجاویں اس بات کو ان چند دلائل سے ثابت کرتا ہے : (1) تصدیق الذی بین یدیہ کہ محمد (علیہ السلام) مکہ میں پیدا ہوئے ‘ وہیں جوان ہوئے ‘ وہاں نہ کوئی اہل علم تھا نہ کوئی کتب خانہ ‘ نہ آپ نے کسی سے کچھ پڑھا نہ اس کے لئے کہیں کا سفر کیا۔ باوجود اس کے ایسا قرآن ان سے ظاہر ہونا کہ جس میں خدا کی ذات وصفات و ملائکہ و دیگر اصول دینیہ و قصص انبیائِ سابقین اس کثرت سے ہوں اور پھر بھی ان امور میں پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں سے مخالف نہ ہو بلکہ ان کا مصدق۔ یہ بات بغیر الہام ربانی و وحیِ الٰہی ممکن نہیں۔ (2) تفصیل الکتاب کہ یہ قرآن کتاب فطری یا لوح محفوظ کی تفصیل ہے۔ بیشمار علوم الٰہیات و عملیات کا اس میں ٹھیک ٹھیک اور صحیح طور پر اور اسی کے مطابق ہونا اس کے من اللہ ہونے کی دلیل بین ہے۔ اسی لئے اس کی نسبت من رب العلمین کہنا بہت صحیح ہے۔ پھر فرماتا ہے اب بھی اس کو جھوٹا کہیں تو ان سے کہہ دو کہ تم اس کی ایک سورة کے برابر تو بنا کر دکھا دو اور جس سے چاہو مدد بھی لے لو۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کو اس کی حقیقت نہ معلوم ہوئی اس لئے اپنی نادانی سے جھٹلاتے ہیں اور قرآن کی خبریں پورا ہونے کا تو ابھی وقت بھی نہ آیا تھا۔ پہلے سے جھٹلا دیا۔ پھر جھٹلانے والوں کا انجام بھی بہت ہی برا ہوتا ہے۔
Top