Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 147
وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا قَوْلَھُمْ : ان کا کہنا اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : انہوں نے دعا کی رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : بخشدے ہم کو ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَ اِسْرَافَنَا : اور ہماری زیادتی فِيْٓ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں وَثَبِّتْ : اور ثابت رکھ اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد فرما عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور (اس حالت میں) ان کے منہ سے کوئی بات نکلتی تو یہی کہ اے پروردگار ہمارے گناہ اور زیادتیاں جو ہم اپنے کاموں میں کرتے رہے ہیں معاف فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت فرما
(147۔ 148۔ 149) اور ان مومنین کی تو اپنے نبی کے شہید ہوجانے کے بعد بارگاہ الہی میں یہ دعا تھی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمارے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو معاف فرما نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں بھی فتح وغنیمت دی اور آخرت میں بھی جنت عطا کی اور اللہ تعالیٰ ایسے مومنین کو جو جہاد میں ثابت قدم رہتے ہیں پسند فرماتے ہیں، ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ حذیفہ ؓ اور عمار ؓ اگر تم کعب اور اس کے ساتھیوں کا کہا مانوگے تو وہ تمہیں تمہارے سابقہ دین کفر کی طرف واپس پھیر دیں گے اور اس لوٹنے کے بعد تم دنیا وآخرت کی بربادی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ ہے۔
Top