Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 147
وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا قَوْلَھُمْ : ان کا کہنا اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : انہوں نے دعا کی رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : بخشدے ہم کو ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَ اِسْرَافَنَا : اور ہماری زیادتی فِيْٓ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں وَثَبِّتْ : اور ثابت رکھ اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد فرما عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور ان کی زبانوں سے نکلتا تھا کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے ہم سے ہمارے کام میں جو زیادتیاں ہوگئی ہیں ان سے درگزر فرما ، ہمارے قدم راہ حق میں جما دے اور منکرین حق کے گروہ پر ہمیں فتح مند کر دے
وہ مجاہدین بھی ایسے تھے کہ جہاد کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے تھے : 269: اس آیت میں گویا اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان لوگوں کے عمل میں تو کیا لغزش ہوتی زبان تک بھی ان کی کلمات تحمید و تمجید اور اعتراف عجزو قصور کے لئے وقف رہی اور وہ اپنے رب سے اس طرح دعائیں کرتے رہے کہ : اے اللہ ! ہمارے پچھلے گناہ معاف فرما دے اے اللہ ! اس عمل جہاد میں ہم سے جو کوتاہی ہوگی ہو اس کو معاف فرما دے۔ اے اللہ ! منکرین حق کے گروہ پر ہمیں فتح مند کر دے۔ اللہ کے نیک بندوں کی اند دعاؤں میں ہمارے لئے کتنے ہی سبق محفوظ کر دئے گئے اگر ہم یاد کرنے والے ہوں اور اللہ کرے کہ ہم کو یاد رہیں۔ 1 ۔ یہ کہ حقیقت شناس مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کتنا ہی بڑا نیک کام اور کتنی ہی جدوجہد اللہ کی راہ میں کر رہا ہو اس کو یہ حق نہیں کہ اپنے عمل پر مان کرے کیونکہ در حقیقت اس کا عمل بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی نیک عمل ہو ہی نہیں سکتا چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ فو اللہ لولا اللہ ما اھتدینا۔ ولا تصد قنا ولا صلینا ” اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہمیں نہ سیدھے راستے کی ہدایت ملتی اور نہ ہم سے زکوٰۃ و نماز ادا ہو سکتی۔ 2 ۔ جو نیک عمل کوئی انسان کرتا ہے وہ کتنا ہی درست کر کے کرے لیکن اس مالک الملک و الملکوت کی شان جلائی کے مطابق کرلینا اس کے بس میں نہیں۔ اس کے ادرئے حق میں کوتاہی ناگزیر ہے اس لئے اس سے حالت عمل میں بھی استغفار کی ضرورت ہے۔ 3 ۔ کبھی یہ اطمینان نہیں ہو سکتا کہ جو نیک عمل وہ اس وقت کر رہا ہے آگے بھی اسے اس کی توفیق ہوگی اس لئے موجودہ عمل میں کوتاہی پر ندامت اور آئندہ کے لئے اس پر قائم رہنے کی دعا مومن کا وظیفہ ہونا لازمی ہے۔ 4 ۔ اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرنے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کو اس دنیا میں انسان کو جو رنج و غم یا کوئی کسی طرح کی تکلیف یا دشمن کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اکثر اس کے سابقہ گناہوں کا اثر ہوتا ہے جس کا علاج استغفار و توبہ ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ مولانا رومی نے کہا۔ غم چو بینی زعد استغفار کن غم بامرا خالق آمد کارکن
Top