Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 147
وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا قَوْلَھُمْ : ان کا کہنا اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : انہوں نے دعا کی رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : بخشدے ہم کو ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَ اِسْرَافَنَا : اور ہماری زیادتی فِيْٓ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں وَثَبِّتْ : اور ثابت رکھ اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد فرما عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
ان کی دعا تو ہمیشہ بس یہ رہی کہ اے رب ہمارے گناہوں اور ہمارے معاملے میں ہماری بےاعتدالیوں کو بخش دے، ہمارے قدم جمائے رکھ اور کافروں کے مقابل میں ہماری مدد فرما۔
تفسیر آیت 148-149: وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا الایہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں جب مصیبتیں اور آزمائشیں پیش آئیں تو انہوں نے اس طرح کی باتیں نہیں بنائیں جس طرح کی باتیں آج کمزور قسم کے مسلمان اور منافق لوگ بنا کر پیغمبر کے خلاف طرح طرح کے شبہات دلوں میں پیدا کر رہے ہیں، بلکہ جو افتاد انہیں پیش آئی اس کو انہوں نے خدا، اور رسول کی طرف منسوب کرنے کے بجائے خود اپنی کمزوری اور اپنے تجاوز پر محمول کیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگی۔ اس کا صلہ ان کو یہ ملا کہ دنیا میں بھی خدا نے ان کو اقتدار اور حکومت سے سرفراز فرمایا اور آخرت میں بھی ان کے لیے نہایت اعلی صلہ و انعام موجود ہے۔ آخر میں فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو مرتبہ احسان پر فائز ہیں اور اللہ ایسے ہی خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے۔ ۔۔۔ اگلی آیات 149 تا 155 کا مضمون : آگے بھی انہی کمزوریوں پر تبصرہ ہے جو جنگ احد اور اس کی شکست سے ابھر کر سامنے آئی تھیں۔ قرآن نے ان میں سے ایک ایک کو لے کر ان کے باطن کو نمایاں کیا ہے، ان کی اصلاح کی تدبیریں بتائی ہیں اور اس آزمائش سے مسلمانوں کی تربیت و تطہیر کے جو مصالح پورے ہوئے ہیں ان کی طرف اشارے فرمائے ہیں۔
Top