Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 147
وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا قَوْلَھُمْ : ان کا کہنا اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : انہوں نے دعا کی رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : بخشدے ہم کو ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَ اِسْرَافَنَا : اور ہماری زیادتی فِيْٓ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں وَثَبِّتْ : اور ثابت رکھ اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد فرما عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور ان کا کہنا تو بس اتنا ہی تھا کہ وہ کہتے رہے کہ اے، ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو اور ہمارے باب میں ہماری زیادتی کو بخش دے اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور ہم کو کافروں پر غالب کر،290 ۔
290 ۔ (آیت) ” وما کان قولھم “۔ اس سے اشارہ ہوگیا کہ ان لوگوں کے عمل میں تو لغزش کیا ہوتی، زبان تک بھی ان کی کلمات تحمید وتمجید اور اعتراف عجزوقصور کے لیے وقف رہی (آیت) ” ذنوبنا۔ اسرافنا “۔ ذنوب سے یہاں مراد صغائر سے لی گئی ہے اور اسراف سے کبائر مراد ہیں۔ ذنوبنا یعنی مراد صغائر سے لی گئی ہے اور اسراف سے کبائر مراد ہیں۔ ذنوبنا یعنی الصغائر واسرافنا یعنی الکبائر (قرطبی) ابن فورک نے کہا ہے کہ اس سے قدریہ کا رد بھی نکل رہا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ افعال عبد کا خالق نہیں ہے (بحر)
Top