Tafseer-Ibne-Abbas - Az-Zukhruf : 80
اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ١ؕ بَلٰى وَ رُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ
اَمْ يَحْسَبُوْنَ : یا وہ سمجھتے ہیں اَنَّا : بیشک ہم لَا نَسْمَعُ : نہیں ہم سنتے سِرَّهُمْ : ان کی راز کی باتیں وَنَجْوٰىهُمْ : اور ان کی سرگوشیاں بَلٰى : کیوں نہیں وَرُسُلُنَا : اور ہمارے بھیجے ہوئے لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ : ان کے پاس لکھ رہے ہیں
کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو سنتے نہیں ہاں ہاں (سب سنتے ہیں) اور ہمارے فرشتے ان کے پاس (ان کی) سب باتیں لکھ لیتے ہیں
کیا صفوان بن امیہ اور اس کے ساتھیوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم ان کی آہستہ آہستہ باتوں کو اور کچھ ارد گرد ان کے خفیہ مشوروں کو نہیں سنتے ضرور سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے خود ان کے پاس ہیں وہ ان کی ہر قسم کی باتوں اور خفیہ مشوروں کو لکھتے رہتے ہیں۔ شان نزول : اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ (الخ) اور ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی سے روایت نقل کی ہے بیان کرتے ہیں کہ کعبہ مکرمہ اور اس کے غلاف کے درمیان تین شخص تھے جن میں دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی ان میں سے ایک کہنے لگا کہ تمہاری کیا رائے ہے اللہ تعالیٰ ہماری باتوں کو سنتا ہے ؟ تو دوسرا کہنے لگا کہ جس وقت تم زور سے کہتے ہو تو سنتا ہے اور جب آہستہ بات کرتے ہو تو نہیں سنتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی کیا ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی چپکے چپکے کی جانے والی باتوں کو اور ان کے مشوروں کو نہیں سنتے۔
Top