Tafseer-Ibne-Abbas - Al-A'raaf : 65
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
(204) جب فرض نمازوں میں قرآن حکیم پڑھا جاتا ہے تو اس کی قرأت کو سنو اور خاموشی اختیار کیے رکھو۔ شان نزول : (آیت) ”واذا قریء القران“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں رسول اکرم ﷺ کے پیچھے آوازیں بلند کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور مزید ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت کیا ہے کہ ہم نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور جب قرآن کریم پڑھا جایا کرے، الخ، اور عبداللہ بن مغفل سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے بھی ان مسعود ؒ سے اسی طرح روایت کیا ہے نیز زہری ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت انصار کے کچھ نوجوانوں کے متعلق نازل ہوئی کیوں کہ رسول اکرم ﷺ جب بھی کچھ پڑھتے تو وہ بھی پڑھتے تھے۔ اور سعید بن منصور ؒ نے اپنی سنن میں بواسطہ ابومعشر محمد بن کعب ؒ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی قرأت کو بغور سنتے تھے، آپ جب بھی (نماز میں) قرأت فرماتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ پڑھتے تھے یہاں تک کہ سورة اعراف کی یہ آیت اتر آئی، ان روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں آئی ہے۔
Top