Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Nahl : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور خدا ہی نے تمہارے لیے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اُسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لیے ڈیرے بنائے۔ جن کو تم سبک دیکھ کر سفر اور حضر میں کام میں لاتے ہو اور اُن کی اون، پشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں (بناتے ہو جو) مدت تک (کام دیتی ہیں)
احسانات الٰہی کی ایک جھلک قدیم اور بہت بڑے ان گنت احسانات وانعامات والا اللہ اپنی اور نعمتیں ظاہر فرما رہا ہے۔ اسی نے بنی آدم کے رہنے سہنے آرام اور راحت حاصل کرنے کے لئے انہیں مکانات دے رکھے ہیں۔ اسی طرح چوپائے، جانوروں کی کھالوں کے خیمے، ڈیرے، تمبو اس نے عطا فرما رکھے ہیں کہ سفر میں کام آئیں، نہ لے جانا دو بھر نہ لگانا مشکل، نہ اکھیڑنے میں کوئی تکلیف۔ پھر بکریوں کے بال، اونٹوں کے بال، بھیڑوں اور دنبوں کی اون، تجارت کے لئے مال کے طور پر اسے تمہارے لیے بنایا ہے۔ وہ گھر کے برتنے کی چیز بھی ہے اس سے کپڑے بھی بنتے ہیں، فرش بھی تیار ہوتے ہیں، تجارت کے طور پر مال تجارت ہے۔ فائدے کی چیز ہے جس سے لوگ مقررہ وقت تک سود مند ہوتے ہیں۔ درختوں کے سائے اس نے تمہارے فائدے اور راحت کے لئے بنائے ہیں۔ پہاڑوں پر غار قلعے وغیرہ اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ ان میں پناہ حاصل کرو۔ چھپنے اور رہنے سہنے کی جگہ بنا لو۔ سوتی، اونی اور بالوں کے کپڑے اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ پہن کر سردی گرمی کے بچاؤ کے ساتھ ہی اپنا ستر چھپاؤ اور زیب وزینت حاصل کرو اور اس نے تمہیں زرہیں، خود بکتر عطا فرمائے ہیں جو دشمنوں کے حملے اور لڑائی کے وقت تمہیں کام دیں۔ اسی طرح وہ تمہیں تمہاری ضرورت کی پوری پوری نعمتیں دئیے جاتا ہے کہ تم راحت وآ رام پاؤ اور اطمینان سے اپنے منعم حقیقی کی عبادت میں لگے رہو۔ تسلمون کی دوسری قرأت تسلمون بھی ہے۔ یعنی تم سلامت رہو۔ اور پہلی قرأت کے معنی تاکہ تم فرما نبردار بن جاؤ۔ اس سورة کا نام سورة النعم بھی ہے۔ لام کے زبر والی قرأت سے یہ بھی مراد ہے کہ تم کو اس نے لڑائی میں کام آنے والی چیزیں دیں کہ تم سلامت رہو، دشمن کے وار سے بچو۔ بیشک جنگل اور بیابان بھی اللہ کی بڑی نعمت ہیں لیکن یہاں پہاڑوں کی نعمت اس لئے بیان کی کہ جب سے کلام ہے وہ پہاڑوں کے رہنے والے تھے تو ان کی معلومات کے مطابق ان سے کلام ہو رہا ہے اسی طرح چونکہ وہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں والے تھے انہیں یہی نعمتیں یاد دلائیں حالانکہ ان سے بڑھ کر اللہ کی نعمتیں مخلوق کے ہاتھوں میں اور بھی بیشمار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سردی کے اتارنے کا احسان بیان فرمایا حالانکہ اس سے اور بڑے احسانات موجود ہیں۔ لیکن یہ ان کے سامنے اور ان کی جانی پہچانی چیز تھی۔ اسی طرح چونکہ یہ لڑنے بھڑنے والے جنگجو لوگ تھے، لڑائی کے بچاؤ کی چیز بطور نعمت ان کے سامنے رکھی حالانکہ اس سے صدہا درجے بڑی اور نعمتیں بھی مخلوق کے ہاتھ میں موجود ہیں۔ اسی طرح چونکہ ان کا ملک گرم تھا فرمایا کہ لباس سے تم گرمی کی تکلیف زائل کرتے ہو ورنہ کیا اس سے بہتر اس منعم حقیقی کی اور نعمتیں بندوں کے پاس نہیں ؟ اسی لئے ان نعمتوں اور رحمتوں کے اظہار کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ میری عبادت اور توحید کے اور میرے بےپایاں احسانوں کے قائل نہ ہوں تو تجھے ان کی ایسی پڑی ہے ؟ چھوڑ دے اپنے کام میں لگ جا تجھ پر تو صرف تبلیغ ہی ہے وہ کئے جا۔ یہ خود جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں کا دینے والا ہے اور اس کی بیشمار نعمتیں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن باوجود علم کے منکر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ مددگار فلاں ہے رزق دینے والا فلاں ہے، یہ اکثر لوگ کافر ہیں، اللہ کے ناشکرے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اس آیت کی تلاوت اس نے تمہیں چوپایوں کی کھالوں کے خیمے دئیے اس نے کہا یہ بھی سچ ہے، اسی طرح آپ ان آیتوں کو پڑھتے گئے اور وہ ہر ایک نعمت کا اقرار کرتا رہا آخر میں آپ نے پڑھا اس لئے کہ تم مسلمان اور مطیع ہوجاؤ اس وقت وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت اتاری کہ اقرار کے بعد انکار کر کے کافر ہوجاتے ہیں۔
Top