Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور اللہ نے بنائی ہے تمہارے لیے تمہارے گھروں میں سے سکونت کی جگہ اور بنائے ہیں تمہارے لیے مویشیوں کی کھالوں سے گھر ، جن کو تم ہلکا خیال کرتے ہو کوچ والے دن اور قیام والے تن اور ان کی اون پشم اور بالوں سے طرح طرح کا سامان اور فائدہ اٹھانے کی چیز ایک وقت تک ۔
(ربط آیات) شرک اور مشرکین کے رد کے بعد اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت اور جزائے عمل کی طرف اشارہ کیا ، پھر فرمایا کہ انسانوں کے تمام مخفی حالات سے صرف اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے جو کائنات کی تمام مخفی چیزوں کو جانتا ہے قیامت کو بھی اپنے وقت پر وہی برپا کرے تا ، انسان قیامت کے وقت کے متعلق کچھ نہیں جانتے اور وہ اچانک ہی آئے گی ، انسان کی انفرادی موت بھی اچانک ہی واقع ہوجاتی ہے کوئی شخص اس کے وقت اور مقام کو نہیں جانتا گویا قیامت صغری اور قیامت کبری میں اس لحاظ سے مناسبت ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور وحدانیت کے دلائل کا ذکر کیا پہلے انسان کے جسم میں موجود بڑی بڑی نعمتوں کو یا ددلایا ، پھر پرندوں کو ہوا میں تھامنے کا بیان ہوا کہ یہ بھی اللہ ہی کی قدرت کا شاہکار ہے ، فرمایا یہ ایمان والوں کے لیے نشانات قدرت ہیں جن میں غور کرکے وہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت بالغہ کو سمجھ سکتے ہیں ۔ (گھر ذریعہ سکون) اب آج کے درس میں بھی اللہ نے انسان پر کیے گئے بعض انعامات کا ذکر کرکے انہیں اپنی قدرت اور وحدانیت کی دلیل بنایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واللہ جعل لکم من بیوتکم سکنا “۔ اور اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکونت کی جگہ بنایا ہے سکنا کے مسکون اور سکون دونوں مادے ہیں ، اگر یہ مسکون کے مادہ سے ہو تو مطلب ہے کہ ایسی جگہ جہاں تم سکونت یعنی رہائش اختیار کرتے ہو اور سکون کے مادہ سے ہو تو مطلب ہوگا سکون یعنی آرام پکڑنے کی جگہ ، سورة الانعام میں رات کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” جعل الیل سکنا “۔ اس نے تمہارے لیے رات کو آرام و سکون کا ذریعہ بنایا ہے ، ظاہر ہے کہ تمام جاندار دن بھر روزی کی تلاش میں مشقت کرکے تھک ہار جاتے ہیں تو پھر انہیں اپنی تحلیل شدہ قوتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، جو انہیں رات کے سناٹے میں حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اگلے دن کی مشقت کے پھر تیار ہوجاتے ہیں ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں ” کلما علاک واظلک “۔ جو چیز تمہارے اوپر سایہ افگن ہوتی ہے اسے سماء کہتے ہیں اور اس کا اطلاق چھت پر بھی ہوتا ہے کہ یہ بھی انسان کے سروں سے اوپر ہوتی ہے ، پھر فرمایا ” کلما اقلک “ جو چیز تمہیں اٹھاتی ہے ، وہ زمین ہے ، اس پر قدم رکھ کر انسان چلتا پھرتا ہے ، گویا زمین اسے اٹھائے ہوئے ہے ، اور جو چیز انسان کو اردگرد سے پردے کی صورت میں گھیرتی ہے وہ جدار یعنی دیوار ہے یہ تینوں چیزیں یعنی زمین چھت اور دیواریں مل جائیں تو مکان معرض وجود میں آجاتا ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت کریمہ میں بطور احسان فرمایا ہے ۔ (انسان کی بنیادی ضروریات) حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ خوراک پانی ، لباس ” اوبیتا یسکنوہ “ اور سکون پکڑنے کی جگہ مکان ، انسان کی بنیادی ضروریات ہیں جو ہر انسان کو بلالحاظ مذہب وملت اور رنگ ونسل حاصل ہونی چاہئے موجودہ زمانے میں ان میں دو مزید چیزیں شامل کردیں گئی ہی یعنی تعلیم جس کے ذریعے انسان اپنے فرائض کو پہچان سکے اور صحت ، ان چھ بنیادی ضروریات کو یونیسکو (UNESCO) بھی تسلیم کرتی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے ” طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ “۔ یعنی ہر مرد وزن پر اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے جس کے ذریعے وہ اپنے فرائض ادا کرسکے چونکہ فرائض کی ادائیگی صحت و تندرستی کے بغیر نہیں ہو سکتی ، لہذا یہ بھی بنیادی ضرورت شمار کی گئی ہے ، چناچہ آج کی دنیا میں بھی کامیاب حکومت وہی تصور ہوتی ہے ، جو اپنے باشندوں کو بنیادوں ضروریات مہیا کرے ، ملک میں کوئی بھوکا پیاسا نہ ہو ، ہر نیک وبد کے لیے خوراک اور پانی لازمی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا مکان اور لباس بھی ضروری ہے اگرچہ وہ ادنی قسم کا ہی ہو شادی شدہ جوڑے کے لیے تو مکان کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے ، حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ اگر کوئی مکان کا بندوبست نہیں کرسکتا تو اس کی شادی بھی ممکن نہیں ، کم از کم اتنا مکان تو ہونا چاہئے جس میں وہ اپنے اہل و عیال سمیت گزارہ کرسکے ، بہرحال اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مکان جیسی بنیادی ضرورت کا ذکر کیا ہے عام طور مکان مٹی گارے اور اینٹ پتھر کے ہوتے ہیں تاہم یہ خیموں کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ قدیم زمانے میں ہوتے تھے ، اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے ، بہرحال گرمی ، سردی اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مکان ضروری ہے ، جسے اللہ نے یہاں پر انعام کے طور ذکر فرمایا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ لفظ ” سکنا “ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ گھر کا مقصد آرام حاصل کرنا ہے اور گھر وہی اچھا ہوگا جس میں آکر انسان کو آرام و راحت حاصل ہو ، اگر انسان کو گھر میں داخل ہو کر سکون نصیب نہیں ہوتا تو اس کی عالیشان بلڈنگ بھی بیکار محض ہے جو کہ مکان کے مقصد کو پورا نہیں کرتی ، مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے سعادت مند شخص وہ ہے جسے اچھا گھر ، اچھی بیوی ، اور اچھی سواری میسر ہو ، اگر یہ تینوں چیزیں ناموافق ہوں یعنی مکان میں گرمی سردی اور بارش سے بچاؤ کا انتظام نہ ہو ، بیوی مرضی کے خلاف ہو ، اور سواری بھی تنگ کرتی ہو ، تو ایسا شخص دنیاوی لحاظ سے شقی ہوگا ، بہرحال مکان سکونت اور آرام کے لیے ہے اور انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ۔ (چمڑے کے خیمے) نزول قرآن کے زمانے میں گھر کے طور پر چمڑے کے خیمے عام استعمال ہوتے تھے ، اکثر لوگ خانہ بدوش زندگی بسر کرتے تھے ، جہاں خوراک اور پانی میسر آیا وہاں خیمے لگا کر رہائش اختیار کرلی ، یہ ذخیرہ ختم ہوگیا تو آگے چل دیے عام مکان کا ذکر کرنے کے بعد آیت کے اگلے حصے میں اللہ نے خاص طور پر خیموں کے گھروں کا ذکر فرمایا کہ اس کا تم پر یہ بھی احسان ہے (آیت) ” وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا “۔ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی کھالوں سے گھر بنائے اور یہ ایسے گھر ہیں (آیت) ” تستخفونھا “ کہ تم انہیں ہدکا خیال کرتے ہو (آیت) ” یوم ظعنکم “۔ سفر کے دن (آیت) ” ویوم اقامتکم “۔ اور اپنے قیام کے دن ، ظاہر ہے کہ اینٹ پتھر کا مکان تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا ، البتہ کپڑے ، پلاسٹک یا کھال کا خیمہ تو آسانی سے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لے جایا جاسکتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ خیمے کا گھر تم دوران سفر بھی ہلکا خیال کرتے ہو کہ بآسانی جانور پر لادا جاسکتا ہے اور دوسری جگہ آسانی سے قائم بھی کیا جاسکتا ہے ۔ گویا اقامت بھی آسانی کے ساتھ ہو سکتی ہے مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ہم چالیس آدمی ایک موقع پر حضور ﷺ کے ساتھ چمڑے کے خیمے میں مقیم تھے اور آپ نے وہاں ایک خوشخبری بھی سنائی ، ترمذی شریف کی روایت (1) (ترمذی ص 292 ، ج 1) میں آتا ہے کہ گرم موسم میں سفر کے دوران افضل صدقہ ” ظل فسطاط یعنی سایہ مہیا کرنا ہے اور کسی نے غازیوں اور مجاہدین کے لیے خیمہ کا بندوبست کردیا تو یہ اس کے لیے بہترین صدقہ ہوگا ، پرانے زمانے میں خیموں کو بڑی اہمیت حاصل تھی ، آج کے دور میں بھی فوج نقل وحمل کے دروان خیموں سے کام لیا جاتا ہے اس کے علاوہ ایام حج میں منی اور عرفات کے میدانوں میں خیموں میں ہی قیام کیا جاتا ہے ، اور ہمیشہ کیا جاتا رہے گا ہر سال دنیا بھر میں خیمہ بستی کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے ، جہاں تک خیموں کی ساخت کا تعلق ہے اللہ نے فرمایا کہ چمڑے کے علاوہ (آیت) ” ومن اصوافھا “۔ یہ جانوروں کی اون سے بھی تیار ہوتے ہیں ، بھیڑوں کی اون اس مقصد کے لیے نہایت کارآمد ہے (آیت) ” واوبارھا “۔ یہ جانوروں کی پشم سے بھی تیار ہوتے ہیں اونٹوں کا پشم خیمے بنانے کے کام آتا ہے (آیت) ” واشعارھا “ اور ان کے بالوں سے بھی ، بکری کے بال بھی خیمہ بنانے کے کام آتے ہیں ، فرمایا ” اثاثا “ ان سے تم طرح طرح کے سامان تیار کرتے ہو ، پہننے ، اوڑھنے اور بچھانے کے لیے کپڑے جانوروں کے بالوں اور اون وغیرہ سے ہی تیار ہوتے تھے (آیت) ” ومتاعا الی حین “ ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے مدت مقررہ تک تمہارے لیے فائدے کا سامان رکھا ہے ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کی نشانیاں ہیں ۔ (سایہ کی نعمت) آگے اللہ نے ایک اور نعمت کا ذکر کیا ہے (آیت) ” واللہ جعل لکم مما خلق ظللا “۔ اللہ نے اپنی تخلیق کردہ اشیاء میں سے تمہارے لیے سائے بھی بنائے ، دھوپ اور گرمی میں سایہ بہت بڑی نعمت ہے کہیں درختوں کا سایہ ، کہیں پہاڑوں کا اور کہیں عمارات کا سایہ مہیا فرمایا ، اگر یہ نہ ہوتا تو انسان اور جانور بڑی مشقت میں مبتلا ہوتے ، خاص طور پر بادلوں کا سایہ تو بہت ہی خوشگوار ہوتا ہے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ نے بادلوں کے سایہ کا خصوصی انتظام فرمایا تھا ، یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ دو لعنت والی چیزوں سے بچو ان میں سے ایک سایہ ہے اور دوسرا شارع عام ، فرمایا ان دو جگہوں پر بول وبراز کرنا باعث لعنت ہے کیونکہ سایہ لوگوں کے آرام کرنے کی جگہ ہے اور اگر وہاں گندگی ہوگی تو ان کے آرام میں خلل واقع ہوگا ، اسی طرح عام راستے پر بھی گندگی ہوگی تو مسافروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا ، لہذا ان دو جگہوں پر بول وبراز کرکے لعنت کے مستحق نہ بنو تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں میں سے سایہ بھی ایک نعمت ہے ۔ (آیت) ” وجعل لکم من الجبال اکنانا “۔ اور تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ، غار میں انسانوں کو بارش یا دھوپ سے محفوظ رکھتے ہیں دشمن کا خوف ہو تو غاروں میں پناہ لی جاتی ہے ، تو اللہ نے پہاڑوں کی غاروں کو بھی اپنی نشانی اور انسان کے لیے نعمت قرار دیا ۔ (بچاؤ کی قمیصیں ) آگے ایک اور نعمت کا تذکرہ فرمایا (آیت) ” وجعل لکم سرابیل “ اور تمہارے لیے قمیصیں بنائیں (آیت) ” تقیکم الحر “ جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ، ظاہر ہے کہ قمیص انسان کو گرمی اور سردی دونوں سے بچاتی ہے مگر یہاں پر سردی کا ذکر نہیں کیا ، اس کی وجہ مفسرین یہ بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کے اولین مخاطبین صحرائے عرب کے لوگ تھے ، جہاں گرمی ہی پڑتی ہے ، وہ لوگ سردی سے چنداں مانوس نہیں تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف گرمی کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ نے ایسی قمیصیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ، مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سورة کے ابتدائی حصے میں مویشیوں کے تذکرہ میں دفء کا ذکر کیا ہے کہ ان میں تمہارے لیے گرمائش کا سامان ہے ، ظاہر ہے کہ سردی کے موسم میں کمبل ، شال اونی لباس کی ضرورت ہوتی ہے جو جانوروں کے پشم اور بالوں سے تیار ہوتے ہیں ، چونکہ وہاں پر سردی سے بچاؤ کا ذکر ہوچکا ہے اس لیے یہاں پر صرف گرمی سے بچاؤ کا بیان آیا ہے ۔ فرمایا اس کے علاوہ (آیت) ” وسرابیل تقیکم باسکم “ ہم نے ایسی قمیصیں بھی بنائی ہیں تو تمہیں جنگ میں بچاتی ہیں ، اس قمیص سے مراد لوہے کی زرہ بکتر ہے جو لوگ دشمن کے وار سے محفوظ رہنے کے لیے پہنتے تھے موجودہ زمانے میں بکتر بند گاڑیاں ایجاد ہوچکی ہیں جو اپنے سواروں کو دشمن کی گولہ باری سے محفوظ رکھتی ہیں سر پر خود پہننے میں بھی یہی مصلحت ہے کہ انسان کسی ممکنہ چوٹ سے بچ سکے خود حضور ﷺ نے زرہ کا استعمال کیا ہے ، چناچہ احد کے روز آپ نے اوپر نیچے دو زرہیں پہن رکھی تھیں ۔ اس قسم کے حفاظتی اقدام عالم اسباب کا لازمی حصہ ہیں اور انہیں اختیار کرنا چاہئے اس کے باوجود تکلیف و راحت تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے جنگ احد میں ان تمام حفاظتی تدابیر کے باوجود مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ۔ (انعامات الہی کا شکریہ) فرمایا (آیت) ” کذلک یتم نعمتہ علیکم “۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے (آیت) ” لعلکم تسلمون “۔ تاکہ تم فرمانبردار بن جاؤ ، مکان ، لباس ، خوراک ، سایہ وغیرہ اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں اسی طرح بارش بھی اللہ تعالیٰ کا مخلوق پر بہت بڑا احسان ہ تو لوگوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کا شکریہ ادا کریں ، اور اس کی فرمانبرداری کریں (آیت) ” فان تولوا “ اور پھر بھی اگر یہ لوگ روگردانی کریں پوری طرح سمجھانے کے باوجود راہ راست پر نہ آئیں ، تو اے پیغمبر (علیہ السلام) (آیت) ” فانما علیک البلغ المبین “۔ آپ کے ذمے تو کھول کر بیان کردینا ہے حق و باطل کو واضح کردینا ہے اگر یہ آپ کی بات کو نہیں مانیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ خود ان سے نپٹ لے گا ، فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” یعرفون نعمۃ اللہ “۔ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو خوب پہچانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا فقط وحدہ لاشریک ہے ، اس کے باوجود (آیت) ” ثم ینکرونھا “۔ ان نعمتوں کی ناقدری کرتے ہی یعنی ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے اور یہ ایسے لوگ ہیں (آیت) ” اکثرھم الکفرون “۔ کہ انکی اکثریت کفر کرنے والوں پر مشتمل ہے ، ان میں سے بعض تو حقیقی کافر ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہی کا انکار کرتا ہے ہیں اور انہیں نے طرح طرح کے شریک بنا رکھے ہیں اور رسومات باطلہ پر ہی اڑے ہوئے ہیں ، اور بعض وہ ہیں جو حقیقی کافر تو نہیں مگر انعامات الہیہ کی ناشکری کرکے کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔
Top