Al-Qurtubi - An-Nahl : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور خدا ہی نے تمہارے لئے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لئے ڈیرے بنائے جن کو تم سبک دیکھ کر سفر اور حضر میں کام لاتے ہو۔ اور ان کی اون اور ریشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں (بناتے ہو جو) مدت تک (کام دیتی ہیں)
آیت نمبر 80 اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : جعل لکم اس کا معنی صیر ہے۔ اور ہر وہ شے جو تجھ پر بلند ہو اور تجھے سایہ کرے تو وہ سقف (چھت) اور سماء ہے، اور ہر وہ شے جو تیرے نیچے ہو وہ ارض (زمین) ہے، اور ہر وہ جو تجھے چاروں جہتوں سے ڈھانپ لے وہ دیوار ہے۔ اور جب یہ باہم منظم ہوجائیں اور آپس میں مل جائیں تو وہ بیت (گھر، کمرہ) کہلاتا ہے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شمار ہے جو لوگوں پر گھروں میں ہیں، پس پہلے شہری گھروں کا ذکر کیا اور یہ وہ ہیں جو طویل اقامت کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اور قولہ تعالیٰ : سکنا یعنی تم ان میں سکونت اختیار کرتے ہو اور تمہارے اعضائے بدن حرکت سے راحت و سکون پاتے ہیں۔ اور کبھی ان میں متحرک و مضطرب رہتے ہیں اور ان سے باہر سکون پاتے ہیں، مگر قول کا اطلاق غالب صورت حال پر ہے۔ اور اسے بھی جملہ نعمتوں میں ہی شمار کیا ہے کیونکہ اگر وہ چاہتا تو بندے کو ایسی حالت میں پیدا کرتا کہ وہ ہمیشہ مضطرب اور متحرک رہتا جیسا کہ افلاک تو وہ یقیناً ایسا ہی ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ تخلیق فرماتا اور چاہتا، اور اگر وہ اسے ساکن پیدا کرتا جیسا کہ زمین تو وہ یقیناً ایسا ہی ہوتا جیسے وہ پیدا کرتا اور ارادہ فرماتا، لیکن اس نے اس کی تخلیق اس انداز سے فرمائی ہے کہ یہ دونوں اعتبار سے تصرف کرسکتا ہے، اور اس کی حالت دونوں حالتوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے، اور یہ اسے جس حال اور کیفیت پر اور جہاں چاہے لوٹا سکتا ہے۔ اور السکن مصدر ہے اس کے ساتھ واحد اور جمع کی صفت لگائی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان گھروں کا ذکر فرمایا جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2: پس فرمایا : وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا تستخفونھا یعنی چمڑوں سے اس نے تمہارے لئے گھر بنائے ہیں۔ بیوتا گھروں سے مراد خیمے اور قبے وغیرہ ہیں جنہیں اٹھانا دوران سفر تم پر آسان اور ہلکا ہوتا ہے۔ یوم ظعنکم۔ الظعن سے مراد گھاس کی تلاش میں جنگل کی طرف چلنا اور بادیہ نشین کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے۔ اسی معنی میں عشرہ کا قول ہے : ظعن الذین فراقھم أتوقع وجری بینھم الغراب الابقع اور الظعن کا معنی ہودج بھی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : ألاھل ھاجک الأظعان إذ بانوا وإذا جاءت یوشک البین غربان اور اسے عین کے سکون اور فتحہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے جیسا کہ الشعر اور الشعر۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ چمڑے، بالوں اور صوف کے خیموں سبھی کو شامل ہو، کیونکہ یہ سب جانوروں کی جلد اور کھال سے ہیں، کیونکہ بال اور اون اسی کھال میں ہی ثابت ہوتے ہیں ؛ اس طرف ابن سلام گئے ہیں۔ اور یہ بہت اچھا احتمال ہے، اور قول باری تعالیٰ : ومن اصوافھا ابتدائے کلام ہو، گویا کہ یہ فرمایا اس نے أثاث (سازوسامان) بنایا مراد لباس اور بستر وغیرہ ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : أھاجتک الظعائن یوم بانوا بذی الذی الجمیل من الأثاث اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ قول باری تعالیٰ : من جلود الانعام سے مراد صرف چمڑے کے گھر (خیمے) ہوں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے۔ اور اس کا قول : ومن اصوافھا کا اس کے قول من جلود الانعام پر عطف ہو، یعنی اس نے صوف کے بھی گھر (خیمے) بنائے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ وہ امر اور شے ہے جو ان علاقوں میں عام اور پھیلا ہوا تھا، اور ہمارے شہر اس سے دور ہیں، پس ہمارے پاس خیمے صرف کتان اور صوف کے بنائے جائے ہیں، اور حضور نبی مکرم ﷺ کا خیمہ بھی چمڑے کا تھا۔ اور تیرے لئے طائف کا چمڑا قیمت میں مہنگا ہونے، بناوٹ میں اعلیٰ ہونے اور دکھائی دینے میں حسین ہونے کے اعتبار سے کافی ہے، اور آپ ﷺ نے اسے خوشحالی اور دولتمندی شمار کیا ہے اور نہ اس میں اسراف اور فضول خرچی دیکھی ہے، کیونکہ یہ ان میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں میں سے شمار کیا ہے اور اس سے استفادہ کی اجازت دی ہے، اور اس کی منفعت کی وجوہ مثلاً اس میں (چیزوں کو) چھپانا اور اس سے سایہ حاصل کرنا وہ ہیں جن سے جنس انسان نکلنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور جو عادت جاریہ ہے اس میں سے عجیب یہ ہے کہ میں نے بعض مصنوعی غافل زاہدوں کی بعض محدثیں کے ساتھ مل کر ملاقات کی۔ پس ہم کتان کے خیمے میں اس کے پاس گئے تو میرے محدث ساتھی نے اسے پیشکش کی کہ وہ اسے اٹھا کر بطور مہمان اس کے گھر آجائے، اور کہا : بیشک یہ ایسی جگہ ہے جہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے اور گھر آپ کے لئے آرام دہ ہوگا اور میرا دل بھی آپ کے بارے میں مطمئن اور خوش ہوگا۔ تو اس نے جواب دیا : ہمارے لیے یہ خمیہ بہت ہے، اور ہماری صنف میں بےوقعت چیز کو اپنایا جاتا ہے۔ تو میں نے کہا : ایسا نہیں جیسا تم نے گمان کیا ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ کے لئے طائف کے چمڑے کا خیمہ تھا حالانکہ زہاد کے رئیس اور سرخیل تھے آپ سفر میں اسے ساتھ رکھتے تھے اور اس سے سایہ حاصل کرتے تھے، پس وہ مبہوت ہوگیا، اور میں نے اسے اپنے مقام پر عاجز اور تھکا ہوا دیکھا تو میں نے اسے اپنے ساتھی سمیت چھوڑ دیا اور اس سے نکل گیا۔ مسئلہ نمبر 3: قولہ تعالیٰ : ومن اصوافھا واوبارھا واشعارھا اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھیڑوں کی صوف، اونٹوں کی اون اور بکریوں کے بالوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ اس نے ہڈیوں میں اجازت عطا کی ہے، اور یہ ان کو ذبح کرنا اور ان کا گا شت کھانا ہے، اور روئی اور کتان کا ذکر نہیں کیا کیونکہ بلاد عرب میں وہ اس کے مخاطب نہیں ہوسکتے، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کو شمار کیا جن کے ساتھ ان پر انعام فرمایا، اور انہیں چیزوں میں انہیں مخاطب بنایا گیا جنہیں وہ اپنی فہم و فراست کے ساتھ پہنچانتے تھے، لیکن جو چیز بھی ان کے قائم مقام اور ان کی نائب ہوگی پس وہ استعمال اور نعمت میں ان کے محل میں داخل ہوگی اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے : وینزل من السمآء من جمال فیھا من برد (النور :43) (اور اتارتا ہے اللہ تعالیٰ آسمان سے برف جو پہاڑوں کی طرح ہوتی ہے) ۔ پس انہیں برد (اولے) کے ساتھ خطاب کیا کیونکہ وہ انہیں اپنے پاس کثرت سے نازل ہونے کے سبب پہچانتے تھے، اور ثلج (برف) کے ذکر سے سکوت اختیار فرمایا، کیونکہ یہ ان کے شہروں اور علاقوں میں نہ تھی، حالانکہ یہ بھی اپنے وصف اور منفعت میں اس (برد) کی مثل ہے، حالانکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے طہارت کے بیان میں آلہ تطہیر کے طور پر ان دونوں کا ذکر ایک ساتھ فرمایا ہے : اللھم اغلسنی بماء وثلج وبرد (اے اللہ ! مجھے پانی، برف اور اولوں کے ساتھ طہارت عطا کر دے) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : الثلج (برف) سفید رنگ کی شے ہے جو آسمان سے اترتی ہے اور من بےا سے کبھی نہیں دیکھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک روئی اور کتان کے ذکر کو چھوڑنا بلاشبہ یہ خوشحالی اور دولتمندی کے اظہار سے اعراض ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے صالح اور نیک بندوں کا لباس صوف (اون) ہے اور یہ محل نظر ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے : یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم (الاعراف : 26) (اے اولاد آدم ! بیشک اتارا ہم نے تم پر لباس جو ڈھانپتا ہے تمہاری شرمگاہوں کو) اس کا بیان سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ اور وہاں فرمایا : جعل لکم سرابیل اور لفظ سرابیل میں روئی اور کتان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور اثاثا خلیل نے کہا ہے : مراد وہ سازوسامان ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہو، یہ أث سے ماخوذ ہے جبکہ وہ زیادہ اور کثیر ہو۔ شاعر نے کہا : وفرع یزین المتن أسود فاحم أثیث کقنو النخلۃ المتعثکل حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اثاثا سے مراد کپڑے ہیں۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور یہ آیت اس معنی کو متضمن ہے کہ صوف، اون اور بالوں سے ہر حال میں نفع حاصل کرنا جائز ہے اسی لئے ہمارے اصحاب نے کہا ہے : مردار کی صوف اور اسکے بال پاک ہیں ان ہر حال میں نفع اٹھانا جائز ہے۔ اور اس خوف سے اسے دھو ڈالا جائے گا کہ اس کے ساتھ کوئی میل کچیل یا گندگی وغیرہ لگی ہوئی ہو۔ اور اسی طرح حضرت ام سلمہ ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” مردار کی کھال کے استعمال میں کوئی حرج نہیں جب اس کی دباغت کردی جائے اور اس کی اون اور اس کے بالوں میں کوئی حرج نہیں جب انہیں دھوڈالا جائے “۔ کیونکہ یہ ان میں سے ہیں جن میں موت داخل نہیں ہوتی، برابر ہے کہ وہ ان جانوروں کے بال ہوں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے یا ان کے جن کا نہیں کھایا جاتا، جیسا کہ انسان اور خنزیر کے بال، کیونکہ یہ سب طاہر اور پاک ہیں ؛ یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے، لیکن انہوں نے ہم سے یہ زائد بیان کیا ہے کہ سینگ، دانت اور ہڈیاں یہ بالوں کی مثل ہیں ؛ فرمایا : چونکہ یہ تمام اشیاء وہ ہیں جن میں روح نہیں ہوتی اس لئے حیوان کی موت کے سبب وہ جنس اور پلید نہیں ہوتیں۔ اور حضرت حسن بصری (رح)، لیث بن سعد اور امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : بیشک بال سارے کے سارے نجس اور پلید ہیں لیکن یہ دھونے کے ساتھ پاک ہوجاتے ہیں۔ اور امام شافعی (رح) سے تین روایتیں ہیں : (1) یہ پاک ہیں موت کے سبب پلید نہیں ہوتے۔ (2) نجس اور ناپاک ہوتے ہیں۔ (3) انسان اور دوسروں کے بالوں میں فرق ہے، پس انسان کے بال پاک ہیں اور اس کے سوا دوسروں کے بال ناپاک ہیں۔ اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ومن اصوافھا الآیہ کا عام ہونا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا ہے کہ ہمارے لئے ان سے انتقاع کو جائز قرار دیا ہے، اور مردار کے بالوں کو ذبح شدہ جانور کے بالوں سے خاص نہیں کیا ہے، پس یہ حکم عام ہی رہے گا مگر یہ کہ کوئی دلیل اس سے مانع ہو۔ اور یہ بھی کہ اصل یہ ہے کہ موت سے پہلے بالاجماع یہ پاک ہیں، پس جس کا گمان یہ ہے کہ یہ (موت کے ساتھ) نجاست کی طرف منتقل ہوگئے ہیں تو دلیل اسی پر ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ قولہ تعالیٰ : حرمت علیکم المیتۃ (المائدہ :3) (تم پر مراد حرام کیا گیا ہے) پورے بدن سے عبارت ہے۔ تو ہم کہیں گے : ہم اسے ان دلائل کے ساتھ خاص کرتے ہیں جو ہم نے ذکر کئے ہیں، کیونکہ یہ تو صوف کے ذکر میں بطور نص ہے اور تمہاری بیان کردہ آیت میں اس کا ذکر صراحۃً موجود نہیں ہے، پس ہماری دلیل اولیٰ اور ارجح ہوئی۔ واللہ اعلم۔ اور شیخ الا مام ابو اسحاق امام الشا فعیہ بغد اد نے اس پر یہ تعویل کی ہے کہ پیدا ئشی طور پر بال حیوان کا جزء متصل ہے، پس وہ اس کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتے ہیں اور دیگر تمام اجزاء کی طرح اس کی موت کے ساتھ وہ بھی نجس اور پلید ہوتے ہیں۔ تو جواب یہ دیا گیا ہے : بیشک بڑھنا اور نمو پانا یہ حیات پر دلیل نہیں ہے، کیونکہ نباتات بڑھتی ہیں لیکن وہ زندہ نہیں۔ جب انہوں نے متصل نشوونما پر محمول کرتے ہوئے ان کی زندگی پر استدلال کیا ہے تو ہم نے انہیں ان کی علیحدگی اور جدائی پر محمول کیا ہے تو انہیں اکھیڑنا اس عدم احساس پر دلالت کرتا ہے جو حیات نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اور رہا وہ جو احناف نے ذکر کیا ہے کہ ہڈیاں، دانت اور سینگ بالوں کی مثل ہیں، تو ہمارے نزدیک مشہور قول یہ ہے کہ وہ گوشت کی طرح نجس ہیں۔ اور ابن وہب (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی مثل کہا ہے۔ اور ہمارے لئے ایک تیسرا قول بھی ہے۔ کیا سینگوں اور کھروں کی اطراف (کنارے) ان کی جڑوں کے ساتھ یا بالوں کے ساتھ ملائی جائیں گی ؟ تو اس بارے میں بھی دو قول ہیں۔ اور اسی طرح پروں کے بال ان کا حکم بالوں کے حکم کی مثل ہے، ان کی ہڈیوں کا حکم اس کے حکم کی مثل ہے۔ اور ہماری دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : ” تم مردار کی کسی شے سے نفع حاصل نہ کرو “۔ اور یہ اس بارے میں اور اس کے ہر جز کے بارے میں عام ہے، سوائے اس کے جس پر دلیل قائم ہوجائے) اور اس پر دلیل قاطع اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : قال من یحی العظام وھی رمیم۔ (یسین) (گستاخ) کہتا ہے ! جی ! کون زندہ کرسکتا ہے ہڈیوں کو جب وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں) اور مزید فرمایا : وانظر الی العظام کیف ننشزھا (البقرہ : 259) (اور دیکھ ان ہڈیوں کو کہ ہم کیسے جوڑتے ہیں انہیں) ۔ اور فرمایا : فکسونا العظم لحما (المومنون : 14) (پھر ہم نے پہنا دیا ان ہڈیوں کو گوشت) اور مزید فرمایا : ءاذا کنا عظاما نخرۃ۔ (النازعات) (یعنی) جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے) پس اصل یہ ہڈیاں ہی ہیں، اور ان میں روح اور حیات اسی طرح ہیں جس طرح گوشت اور جلد میں ہیں۔ اور عبد اللہ بن عکیم کی حدیث میں ہے : ” تم مردار کی کھال سے نفع نہ اٹھاؤ اور نہ اس کے پٹھوں سے “۔ اور اگر کہا جائے : تحقیق صحیح روایت میں ثابت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ کی بکری کے بارے فرمایا : ” کیا تم نے اس کی جلد سے نفع حاصل نہیں کیا ؟ “ تو صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! بلاشبہ وہ تو مردار ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ اسے کھانا حرام ہے “۔ اور ہڈی کھائی نہیں جاتی۔ تو ہم کہیں گے : ہڈی کھائی جاتی ہے، بالخصوص دودھ پینے والے بکری کے بچے، ایک سال کے بکری کے بچے، اور پرندوں کی ہڈیاں، اور بڑوں کی ہڈی کو بھونا جاتا ہے اور کھایا جاتا ہے۔ اور جو کچھ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا وہ سب ہڈیوں میں حیات کے پائے جانے پر دلالت کرتا ہے، اور جو شے حیات کے سبب پاک ہو اور ذبح کرنے کے سبب وہ مباح سمجھی جاتی تو موت کے سبب وہ نجس اور پلید ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4: قولہ تعالیٰ : من جلود الانعام یہ زندہ اور مردہ کی جلد کے بارے میں عام ہے، پس مردار کے چمڑے سے نفع حاصل کرنا جائز ہے اگرچہ اس کی دباغت نہ بھی کی جائے۔ اور یہی ابن شہاب زہری اور لیث بن سعد نے کہا ہے۔ امام طحاوی (رح) نے کہا ہے : ہم نے لیث کے سوا فقہاء میں سے کسی کو نہیں پایا جس نے مردار کی کھال کو دباغت سے قبل بیچنا جائز قرار دیا ہو۔ ابو عمر نے کہا ہے : فقہاء سے مراد تا بعین کے بعد امصار کے ائمہ فتویٰ ہیں، اور رہے ابن شہاب (رح) زہری تو یہ ان سے صحیح ہے، اور یہ وہ قول ہے جس کا جمہور اہل علم نے انکار کیا ہے۔ اور دونوں سے اس قول کے خلاف بھی مروی ہے، اور پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ دار قطنی نے اپنی سنن میں یحییٰ بن ایوب کی حدیث یونس سے اور عقیل کی زہری سے، بقیہ کی حدیث زبیدی سے، محمد بن کثیر عبدی اور ابو سلمہ منقری کی حدیث سلیمان بن کثیر سے اور انہوں نے زہری سے بیان کی ہیں، اور ان کے آخر میں کہا : یہ اسانید صحاح ہیں۔ مسئلہ نمبر 5: مردار کی جلد کی جب دباغت کردی جائے تو علماء کے مابین اختلاف ہے کیا وہ پاک ہوگی یا نہیں ؟ ابن عبد الحکیم نے امام مالک (رح) سے جو ذکر کیا ہے وہ ابن شہاب کے مذہب کے ساتھ اس میں مشابہت رکھتا ہے۔ اسے ابن خویز منداد نے اپنی کتاب میں ابن عبد الحکم سے بھی ذکر کیا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : اور یہی زہری اور لیث کا قول ہے۔ انہوں نے کہا : امام مالک (رح) کا ظاہر مذہب وہ ہے جو ابن عبد الحکم نے ذکر کیا ہے، اور وہ یہ کہ دباغت مردار کی کھال کو پاک نہیں کرتی، لیکن خشک اشیاء میں اس سے نفع اٹھانا مباح ہوتا ہے، اور اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ اس میں ڈال کر کوئی چیز کھائی جائے گی، اور ” مدونہ “ میں ابن قاسم نے کہا ہے : جس نے مردار کی غیر مدبوغ کھال غصب کی پھر اس نے اسے ضائع کردیا تو اس پر اس کی قیمت ہوگی۔ اور انہوں نے یہ بیان کیا کہ یہ امام مالک (رح) کا قول ہے۔ اور ابو الفرض نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک (رح) نے کہا ہے : جس نے کسی آدمی کے مردار کی غیر موبوغ کھال غصب کرلی تو اس پر کوئی شی نہ ہوگی۔ اسماعیل نے کہا ہے : مگر یہ کہ وہ مجوسی کا ہو۔ اور ابن وہب اور ابن عبد الحکم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس کی بیع جائز ہے، اور یہ ہر مردار کی جلدی کے بارے میں ہے سوائے اکیلے خنزیر کے، کیونکہ ذبح کرنا اس میں کوئی عمل نہیں کرتا، تو پھر دباغت بدرجہ اولیٰ عمل نہیں کرے گی۔ ابو عمر نے کہا ہے : ہر وہ جلد جس کو ذبح کیا جائے اس کا استعمال وضو اور اس کے سوا کے لئے جائز ہے۔ اور امام مالک (رح) دباغت کے بعد مردار کی کھال سے بنے ہوئے برتن میں وضو کرنا مکروہ قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا قول مختلف ہے، اور ایک بار انہوں نے کہا : بیشک انہوں نے اسے مکروہ نہیں قرار دیا مگر صرف اپنے حق میں۔ اور اس پر نماز پڑھنا اور اس کو فروخت کرنا مکروہ ہے، اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس میں آپ کی اتباع کی ہے : اور رہے اکثر اہل مدینہ ! تو وہ اس کی اباحت کے قائل ہیں اور اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس چمڑے کو بھی رنگ دیا گیا تو وہ پاک ہوجائے گا “۔ اکثر اہل حجاز اور عراق کے اہل فقہ و حدیث اسی مذہب پر ہیں اور یہی ابن وہب کی پسند ہے۔ مسئلہ نمبر 6: امام احمد بن حنبل ؓ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مردار کی کھال سے کسی شی میں انتفاع جائز نہیں ہے اگرچہ اس کی دباغت کی جائے، کیونکہ وہ مردار کے گوشت کی مانند ہے اور وہ روایات جو دباغت کے بعد نفع حاصل کرنے کے متعلق ہیں وہ آپ کے اس قول کو رد کرتی ہیں۔ اور انہوں نے عبداللہ بن عکیم کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا : ہم پر رسول اللہ ﷺ کا ایک خط پڑھا گیا جو ارض جہینہ کے بارے تھا اور میں جو ان بچہ تھا : ” خبردار ! تم مردار کے چمڑے سے نفع نہ اٹھاؤ اور نہ پٹھوں سے “۔ اور ایک روایت میں ہے : یہ آپ کے وصال سے ایک مہینہ پہلے کا ہے۔ اسے قاسم بن مخیمرہ نے عبد اللہ بن عکیم سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا : ہمیں ہمارے مشائخ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ان کی طرف لکھا۔ داؤد بن علی نے کہا ہے : میں نے یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے پوچھا تو انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا اور کہا : لیس بشئ (یہ کوئی شی نہیں) بلاشبہ وہ کہتے ہیں اشیاخ نے مجھے بتایا، ابو عمر نے کہا ہے : اگر یہ حدیث ثابت بھی ہو تو پھر یہ احتمال ہے کہ یہ ان احادیث کے مخالف ہو جو حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ اور حضرت سلمہ بن محبق ؓ وغیرہ سے مروی ہیں، کیونکہ یہ جائز ہے کہ ابن عکیم کی حدیث کا معنی یہ ہو ” کہ تم مردار کے چمڑے سے دباغت سے پہلے نفع نہ اٹھاؤ “۔ اور جب یہ احتمال ہے کہ یہ مخالف نہیں تو پھر ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ہم اسے مخالف بنائیں، اور ہم پر لازم ہے کہ ہم دونوں خبروں کے مطابق عمل کریں جہاں تک ممکن ہو، اور عبد اللہ بن عکیم کی حدیث اگرچہ حضور نبی مکرم ﷺ کے وصال سے ایک مہینہ قبل کی ہے جیسا کہ خبر میں موجود ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت میمونہ ؓ کا قصہ اور آپ ﷺ سے حضرت ابن عباس ؓ کا سماع ” کہ جس چمڑے کو رنگ دیا جائے وہ پاک ہوگیا “۔ آپ کے وصال سے ایک ہفتہ یا اس سے بھی کم وقت پہلے ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 7: ہمارے نزدیک مشہور یہ ہے کہ خنزیر کی جلد اس حدیث میں داخل نہیں اور نہ عموم اسے شامل ہے، اور اسی طرح کتا بھی امام شافعی (رح) کے نزدیک ہے۔ اور امام اوزاعی اور ابو ثور کے نزدیک یہ ہے کہ دباغت کے ساتھ صرف ان جانوروں کی جلد پاک ہوتی ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ اور معن بن عیسیٰ نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان سے خنزیر کی جلد کے بارے میں پوچھا گیا جب اس کی دباغت کرلی جائے تو انہوں نے اسے مکروہ قرار دیا۔ ابن وضاح نے کہا ہے : میں نے سحنون کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح محمد بن عبد الحکم اور داؤد بن علی اور ان کے اصحاب نے کہا ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” جو چمڑا بھی رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے “۔ ابو عمر نے کہا ہے : یہ ارشاد احتمال رکھتا ہے کہ آپ نے اس قول سے بالعموم وہ چمڑے مراد لئے ہوں جن سے نفع حاصل کرنا معبود اور مروج ہے، تو جہاں تک خنزیر کا تعلق ہے تو وہ اس معنی میں داخل نہیں کیونکہ اس کی جلد سے انتفاع معبود نہیں، کیونکہ اس میں ذبح کرنا بھی کوئی عمل نہیں کرتا۔ اور دوسری دلیل وہ ہے جو نصر بن شمیل نے بیان کی ہے : بیشک اھاب (چمڑا) کا اطلاق گائے، بکری اور اونٹ کی جلد پر ہوتا ہے اور ان کے سوا جو بھی ہیں ان کی کھال کو جلد کہا جاتا ہے نہ کہ اھاب۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : کتے اور ان جانوروں کی جلد جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا اس سے انتفاع بھی غیر معہود ہے لہٰذا وہ پاک نہ ہوگی۔ تحقیق آپ ﷺ نے فرمایا : ” ورندوں میں ذی ناب کو کھانا حرام ہے “۔ پس ان کو ذبح کرنا بھی ذبح کرنا نہیں ہے (یعنی یہ ان میں کوئی اثر نہیں کرتا) جیسا کہ خنزیر میں ذبح کرنا کوئی اثر نہیں کرتا۔ اور نسائی نے حضرت مقدام بن معد یکرب سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے ریشم، سونے اور جلدوں کو زینوں پر اور کجاوں میں بچھانے سے منع فرمایا ہے۔ مسئلہ نمبر 8: فقہاء نے اس دباغت میں اختلاف کیا ہے جس کے ساتھ مردار کی کھالیں پاک ہوجاتی ہیں کہ وہ کیا ہے ؟ پس اصحاب مالک (رح) نے کہا ہے اور یہی آپ کا مشہور مذہب ہے ہر وہ شے جس سے جلد کی دباغت کردی جائے مثلا نمک، بیری کے پتے، یا پھٹکڑی کی مثل نمک یا علاوہ ازیں کوئی شے تو اس سے انتفاع جائز ہے، اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے بھی کہا ہے، اور یہی داؤد کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں : ان میں سے ایک تو یہی ہے، اور دوسرا قول یہ ہے : پھٹکڑی کی مثل نمک اور بیری کے پتوں کے سوا کوئی شے اسے پاک نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ دباغت حضور نبی مکرم ﷺ کے عہد میں معہود تھی، اور اسی کو خطابی نے نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ وہ روایت جسے نسائی نے حضرت میمونہ زوج النبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ قریش کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرے وہ گھوڑے کی مثل اپنی ایک بکری کھینچ کرلے جا رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” کاش تم اس کا چمڑا اتار لیتے “۔ انہوں نے عرض کی : یہ مردار ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” پانی اور بیری کے پتے اسے پاک کردیتے ہیں “۔ مسئلہ نمبر 9: قولہ تعالیٰ : اثاثا، أثاث سے مراد گھر کا سازو سامان ہے، اس کا واحد أثاچۃ ہے ؛ یہ ابو زید انصاری کا قول ہے۔ اموی نے کہا ہے : الآثاث گھر کا سازوسامان ہے، اور اس کی جمع آثۃ اور أثث ہے۔ اور ان کے سوا دوسروں نے کہا : الأثاث سے مراد تمام قسموں کا مال ہے اور اس کے لفظوں میں اس کی کوئی واحد نہیں ہے۔ اور خلیل نے کہا ہے : اس کا اصل معنی کثرت ہے اور سامان میں سے بعض کا بعض کے ساتھ جمع ہونا ہے یہاں تک کہ وہ کثیر ہوجائے، اور اسی سے شعر أثیث ہے بمعنی کثیر۔ اور أث شعر فلان یاث اثا جب بال زیادہ ہوں اور گھنے ہوں۔ امرؤ القیس نے کہا ہے : وفرع یزین المتن أسود فاحم أثیث کقنو النخلۃ المتعثکل اور یہ بھی کہا گیا ہے : الأثاث وہ ہوتا ہے جو پہنا جاتا ہے اور بچھایا جاتا ہے۔ اور قد تاثثت جب تو أثاث بنالے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اثاثا بمعنی مال ہے۔ اور الحین کے بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے، اور یہاں اس سے مراد ہر انسان کے اعتبار سے غیر معین وقت ہے یا تو اس کی موت کے اعتبار سے اور یا ان اشیاء کے مفقود ہونے کے اعتبار سے جو أثاث ہیں۔ اور اسی لفظ کے بارے میں شاعر کا قول ہے : أھاجتک الظعائن یوم بانوا بذی الزی الجمیل من الأثاث
Top