Tafseer-e-Majidi - Al-Ghaafir : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھر وجہ سکون بنائے اور تمہارے لئے جانوروں کے کھال کے گھر بنائے جنہیں تم اپنے کوچ کے دن اور اپنے مقام کے دن ہلکا پاتے ہو،126۔ اور ان کے اون اور ان کے روئیں اور ان کے بالوں سے (تمہارے) گھر کا سامان اور ایک مدت تک چلنے والی فائدے کی چیزیں بنائیں،127۔
126۔ (اور اس لئے سفر میں ان کا لادنا، اکھاڑنا، نصب کرنا سب سہل معلوم ہوتا ہے) (آیت) ” جعل لکم من بیوتکم سکنا “۔ یہ حالت حضر کا ذکر ہے، اور اس کے معا بعد خیموں کی سفری زندگی کا بیان ہے، گویا انسانی معاشرت کی دونوں حالتوں کی مکمل تصویر آگئی، (آیت) ” من بیوتکم سکنا “۔ یہ اینٹ اور پتھر اور مٹی، اور چونے اور لکڑی کے گھر، بیشتر انسانی آبادی کے مسکن، انسان کے لئے راحت قلب و سکون خاطر کا کتنا بڑا ذریعہ اور سبب ہیں، اس کی قدر کوئی اس غریب سے پوچھے، جو بیچارہ بےگھرا ہو، اور اپنا چھوٹا بڑا کوئی مکان بھی نہ رکھتا ہو ! جس طرح ہم بچپن سے کپڑے پہنے رہنے کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ہمیں ان کا وزن تک نہیں محسوس ہوتا، اسی طرح مکان بھی چونکہ چھوٹا بڑا، کوئی نہ کوئی، اپنی حیثیت و بساط کے لائق ہم میں سے ہر شخص رکھتا ہے، اس لئے اس کا پورا اندازہ ہی نہیں ہونے پاتا کہ مکان ہے کتنی بڑی نعمت، یہ قرآن مجید ہی کا کام تھا جو اسے وجہ سکون ومایہ تسکین پکار کر کہہ دے۔ (آیت) ” من جلود الانعام بیوتا “۔ یہ سفری مکان یا خیمے ڈیرے عموما چرمی اور پوستینی ہوا کئے ہیں، (آیت) ” تستخفونھا یوم ظعنکم ویوم اقامتکم “۔ یہ خیمے ڈیرے محض تعیش کا سامان نہیں اور صرف شکار وغیرہ تکلفات ہی کے کام میں نہیں آتے، بلکہ دنیا کی ایک خاصی بڑی آبادی کا مستقل مسکن بھی ہیں۔ عرب اہل بادیہ نے جس طرح نسلوں پر نسلیں خیموں ڈیروں ہی میں گزار دیں، کسی پر مخفی نہیں۔ یہود کی بھی قدیم عبری نسل مدتوں خیمہ بدوش رہی۔ آج بھی دنیا کی نیم وحشی ” خانہ بدوش “ قوموں سے اکثر کا، اور بڑی سی بڑی متمدن قوموں کے ایک خاصے حصہ کا گزر خیموں ہی پر رہا کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ توریت میں بھی خیموں ڈیروں کے حوالے کثرت سے آئے ہیں۔ 127۔ اس کے اندر کمل، دھ سے، شال، دوشالے، کملیاں، جوتے، کوڑے، موزے، تھیلے، تھیلیاں، مشکیزے، بکس بیگ، پیٹیاں، گھوڑے کی کاٹھیاں اور ساز، اور ہر قسوم کا چرمی اور ریشمی سامان آگیا۔ (آیت) ” اثاثاومتاعا “۔ متاع کا مفہوم اثاث سے وسیع تر ہے۔ اور سامان تجارت، اسباب آرائش وزینت وغیرہ سب پر شامل ہے۔ اور امام رازی (رح) نے یہ بھی کہا ہے کہ اثاث تو وہ ہے جو انسان کی پوشش اور دوسری ضروریات میں کام آتا ہے، اور متاع وہ سامان ہے جن سے مکانوں میں فرش اور زینت کا کام لیا جاتا ہے۔ الاثات ما یکتسی بہ المرء ویستعملہ فی الفطاء والوطاء والمتاع مایفرش فی المنازل ویزین بہ (کبیر) آیت سے فقہاء نے یہ نکالا ہے کہ بال، خھال وغیرہ کا انتفاع مردہ جانوروں سے بھی جائز ہے فیہ الادلالۃ علی جواز الانتفاع بما یؤخذ منھا من ذلک بعد الموت اذلم یفرق بین اخذھا بعد الموت و قبلہ (جصاص)
Top