Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ
: جس
اهْتَدٰى
: ہدایت پائی
فَاِنَّمَا
: تو صرف
يَهْتَدِيْ
: اس نے ہدایت پائی
لِنَفْسِهٖ
: اپنے لیے
وَمَنْ
: اور جو
ضَلَّ
: گمراہ ہوا
فَاِنَّمَا
: تو صرف
يَضِلُّ
: گمراہ ہوا
عَلَيْهَا
: اپنے اوپر (اپنے بڑے کو)
وَلَا تَزِرُ
: اور بوجھ نہیں اٹھاتا
وَازِرَةٌ
: کوئی اٹھانے والا
وِّزْرَ اُخْرٰى
: دوسرے کا بوجھ
وَ
: اور
مَا كُنَّا
: ہم نہیں
مُعَذِّبِيْنَ
: عذاب دینے والے
حَتّٰى
: جب تک
نَبْعَثَ
: ہم (نہ) بھیجیں
رَسُوْلًا
: کوئی رسول
جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار کرتا ہے۔ اور جو گمراہ ہوتا ہے گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا۔ اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے
آچھے یا برے اعمال انسان کے اپنے لئے ہیں جس نے راہ راست اختیار کی حق کی اتباع کی نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے۔ کوئی نہ ہوگا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے اور جگہ قرآن میں ہے آیت (وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 13ۧ) 29۔ العنکبوت :13) اور آیت میں ہے (وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ 25) 16۔ النحل :25) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا۔ لہذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا۔ پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول ﷺ کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا۔ چناچہ سورة تبارک میں ہے کہ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے۔ اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقینا آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا۔ اور آیت میں ہے کہ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کردیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا۔ صحیح بخاری میں آیت (اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ 56) 7۔ الاعراف :56) کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے۔ پھر ہے کہ جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟ اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لئے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا۔ اس لئے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ دوزخ پر نہ ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاروں طرف سے سمٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ ہاں جنت کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا۔ باقی رہا یہ مسلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مرجاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ مدد کرے۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا، تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں، چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بےحواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کرسکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہوگا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کرلیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجائے گی۔ اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہوجائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15) 17۔ الإسراء :15) پڑھ لو دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں۔ تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے کہ ان چاروں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہوگی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کرلی۔ چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موسلی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے۔ پانچویں حدیث۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار ؒ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہوجاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آجائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تو اقرار کرچکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے چناچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے، پھر یہی حکم ہوگا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا۔ اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کرچکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الہٰی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑجاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی۔ امام بزار ؒ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثفہ بتلایا ہے۔ یحییٰ بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی۔ چھٹی حدیث۔ امام محمد بن یحیٰی ذہلی ؒ روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہوجائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟ ساتویں حدیث۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کردیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہوگا اللہ عز و جل فرمائے گا۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چناچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی۔ آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہوچکی ہے۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں "۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا حضور ﷺ اگر وہ بچپن میں ہی مرجائے تو ؟ آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم ؑ کے سپرد ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لظف بھی ہے۔ نویں حدیث حافظ ابوبکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے۔ دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ جنت میں کون کون جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے۔ علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا، جن کے پاس بہت سے بچے تھے۔ سوال پر حضرت جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں، لوگوں نے کہا حضور ﷺ مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہوجائے گا۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہوگی اور اللہ تعالیٰ اپنے پہلا علم آشکارا کر دے گا۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہوگا۔ اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلوں میں جمع ہوجاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری ؒ نے یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا نقل فرمایا ہے۔ اور اسی کی تائید امام بہیقی ؒ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر ؒ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں۔ امام صاحب ؒ کے اس قول کا جواب بھی سن لیئجے، اس بارے جو حدیثیں ہیں، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں۔ جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہوجاتی ہیں۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہوگئیں اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے۔ یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہوگئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے۔ شیخ ابو الحسن اشعری ؒ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے۔ مزید براں آیت قرآن آیت (يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42ۙ) 68۔ القلم :42) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہوگا۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مومن تو سجدہ کرلیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گرپڑیں گے۔ بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھرجائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا، جنت میں چلا جا۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہوگیا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کرسکتا۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہوگا جو جہنم کی پیٹھ پر ہوگا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے، بعض مثل بھاگنے والوں کے، بعض مثل پیدل جانے والوں کے، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر، بعض کٹ کٹ کر، جہنم میں پڑیں گے۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہوگا۔ شارع ؑ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہوچکے تھے۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت ﷺ کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے۔ امام اشعری ؓ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں۔ " میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں۔ امام احمد ؒ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بیزار ہوجاتیں۔ حضرت خدیجہ ؓ نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (والذین امنوا واتبعہم ذریتہم بایمان الحقنابہم ذریتہم) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی ؓ کو نہیں پایا واللہ اعلم۔ ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور ﷺ ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مرگئی ہیں، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کردی تھی۔ آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کرلے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہئے۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے۔ جیسے کہ سورة اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں، واللہ اعلم۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلا اختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں۔ اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے۔ موطا امام مالک کی ابو اب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الہٰی کے ماتحت ہیں۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی ؒ نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم۔ اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور ﷺ کو بلایا گیا تو ماں عائشہ ؓ نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہوسکتا اور لوگ اپنی بےعلمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی ناپسند رکھا ہے۔ ابن عباس، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے (ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبداللہ ؓ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے۔
Top