Tafheem-ul-Quran - At-Tahrim : 10
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے 2 نہ بہکا ہے۔ 3
سورة النَّجْم 2 مراد ہیں رسول اللہ ﷺ اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ صَاحِبُکُمْ (تمہارا صاحب)۔ " صاحب " عربی زبان میں دوست، رفیق، ساتھی، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو ہوتے ہیں۔ اس مقام پر آپ ﷺ کا نام لینے یا " ہمارا رسول " کہنے کے بجائے " " تمہارا صاحب " کہہ کر آپ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں باہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہے اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے، کیا ہے، کس سیرت و کردار کا انسان ہے، کیسے اس کے معاملات ہیں، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اسے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ سورة النَّجْم 3 یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کرلینا۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہوگئے ہیں۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کرسکتا ہے۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کرسکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہوجائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آجاتی ہے۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد ﷺ کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ " صاحب " ایک نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہوگیا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کرسکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہوگیا ہے۔
Top