Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
جو کوئی راہ پر آیا تو آیا اپنے ہی بھلے کو اور جو کوئی بہکا رہا تو بہکا رہا اپنے ہی برے کو اور کسی پر نہیں پڑتا بوجھ دوسرے کا4 اور ہم نہیں ڈالتے بلا جب تک نہ بھیجیں کوئی رسول5
4 یعنی سیدھی راہ خدا نے سب کو بتلا دی اب جو کوئی اس پر چلے یا نہ چلے، اپنا بھلا برا خود سوچ لے۔ کیونکہ اپنے طریق عمل کا نفع یا نقصان اسی کو پہنچے گا۔ ایک کے گناہوں کی گٹھڑی دوسرے کے سر پر نہیں رکھی جائے گی۔ 5 یعنی بلاشبہ برے عمل آفت لاتے ہیں، پر حق تعالیٰ بغیر سمجھائے نہیں پکڑتا اسی واسطے رسول بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بیخبر اور غافل نہ رہنے دیں۔ نیک و بد سے پوری طرح آگاہ کردیں۔ جن باتوں کو آدمی محض عقل و فطرت کی راہنمائی سے سمجھ سکتا ہے (مثلاً وجود باری یا توحید) ان کی مزید تشریح و توثیق پیغمبروں کی زبانی کردی جائے اور جن چیزوں کے ادراک میں محض عقل کافی نہ ہو انھیں وحی والہام کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ اسی لیے ابتدائے آفرینش سے حق تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری رکھا تاآنکہ انبیاء (علیہم السلام) کے انوار و فیوض نے دنیا میں ایسی فضا پیدا کردی کہ کوئی معذب قوم دنیا یا آخرت میں جہل و بیخبر ی کا عذر پیش کر کے عذاب الٰہی سے رستگاری حاصل نہیں کرسکتی۔ (تنبیہ) مفسرین نے یہاں " اصحاب فترت " اور اطفال صغار کی تعذیب پر بحث شروع کردی ہے۔ ہم تطویل کے خوف سے درج نہیں کرسکتے۔
Top