Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 86
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١٘ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠   ۧ
اُولٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِیْنَ : وہ جنہوں نے اشْتَرَوُا : خریدلیا الْحَيَاةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْآخِرَةِ : آخرت کے بدلے فَلَا : سو نہ يُخَفَّفُ : ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے169 سو نہ ہلکا ہوگا ان پر عذاب اور نہ ان کو مدد پہنچے گی
169 ان لوگوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی حالانکہ آخرت حاصل کرنیکا پورا پورا سامان ان کے پاس موجود تھا۔ خدا کی کتاب تورات ان کے پاس موجود تھی مگر انہوں نے اس پر عمل کر کے سامانِ آخرت تیار کرنیے کے بجائے اسے دنیا حاصل کرنیکا ذریعہ بنایا۔ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ۔ ان کے عذاب میں قطعاً کوئی تخفیف نہیں ہوگی نہ دنیوی سزا میں نہ اخروی میں وَلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ۔ فعل مجہول لا کر اور فاعل کا ذکر نہ کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مذکورہ عذاب سے بچانے کے لیے انہیں کسی طرف سے کسی قسم کی مدد نہیں پہنچے گی نہ دولت دنیا کے ذریعے انہیں عذاب سے چھڑا جاسکے گا، نہ ان کے اسلاف کی وجاہت اور بزرگی کام آسکے گی اور نہ ہی انہیں اپنے ان بزرگوں کی سفارش اور کارسازی سے نجات مل سکے گی۔ جن کو انہوں نے خدا کے نائب اور کارساز سمجھے رکھا۔ یہ بات کوئی بنی اسرائیل ہی سے مخصوص نہیں بلکہ یہ تو اللہ کا ایک عالمگیر اور اٹل قانون ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے اور اس کی طرف سے آنیوالی تکلیفوں سے کسی کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ نوع رابع اس میں بنی اسرائیل کے آباؤاجداد کی انتہائی کج روی اور سنگدلی کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ اول تکذیب رسل، دوم قتل انبیا، یعنی احکام کا ماننا نہ ماننا ایک طرف رہا۔ تمہارے اسلاف کی کج روی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے خدا کے احکام لانے والے اس کے پیغمبروں کی تکذیب کی اور سرے سے انہیں مانا ہی نہیں اور پھر تکذیب ہی پر بس نہیں کی بلکہ بعض انبیا (علیہم السلام) کو تو وہ سنگدل قتل کرنے سے بھی نہ چوکے۔
Top