Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 86
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١٘ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠   ۧ
اُولٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِیْنَ : وہ جنہوں نے اشْتَرَوُا : خریدلیا الْحَيَاةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْآخِرَةِ : آخرت کے بدلے فَلَا : سو نہ يُخَفَّفُ : ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
یہ وہ (بد بخت) لوگ ہیں جنہوں نے اپنا لیا دنیا کی (عارضی وفانی) زندگی کو، بدلے میں آخرت (کی حقیقی اور ابدی زندگی) کے، سو نہ تو (کسی طرح) ہلکا کیا جائے گا ان سے ان کا عذاب، اور نہ ہی ان کی (کہیں سے کوئی) مدد کی جائے گی،
244 دنیا کی آخرت پر ترجیح بیماریوں کی بیماری ۔ والعیاذ باللہ : سو یہ ہے بیماریوں کی بیماری، اور خرابیوں کی جڑ بنیاد، کہ انسان آخرت کی اپنی حقیقی ابدی اور دائمی زندگی کو بھول کر اور اسے پس پشت ڈال کر اسی دنیائے دوں کیلئے جینے اور اسی کیلئے مرنے لگے۔ یہی حال تھا ابنائے دنیا کا کل بھی، اور یہی حال ہے انکا آج بھی۔ ان کے نزدیک سب کچھ بس یہی دنیائے فانی اور اس کا حطام زائل ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ قرآن حکیم اپنی انقلاب آفریں اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعے جگہ جگہ اور طرح طرح سے اس خیال باطل پر ضرب لگاتا ہے، کہ لوگو ! اس دھوکے میں نہیں پڑنا، کیونکہ اصل زندگی بہرحال آخرت ہی کی زندگی ہے، جیسا کہ سورة الاعلی میں فرمایا گیا ۔ { بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وََالآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَّ اَبْقٰی } ۔ (الاعلی : 16- 17) ۔ یعنی " تم لوگ دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت اس سے کہیں بڑھ کر اچھی بھی ہے، اور ہمیشہ رہنے والے بھی " سو ایسے میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا خرابیوں کی خرابی اور خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو دنیا میں بقدر ضرورت و کفایت ہی مشغول ہونا چاہیے اور بس ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ 245 نور ایمان و یقین سے محروم لوگوں کا ہولناک انجام ۔ والعیاذ باللہ : سو ایسے بدبختوں کو ہمیشہ اسی ہولناک عذاب میں رہنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ تو جس بدنصیب کا انجام یہ ہونے والا ہے، اس کو اگر آج اس دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے، تو بھی اسے کیا ملا، وہ تو بہرحال محروم اور سراسر محروم اور پرلے درجے کا خائب و خاسر ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس کے برعکس جس کو آخرت کی وہ دائمی اور سدا بہار کامیابی نصیب ہوگئی، وہ کتنا بڑا خوش نصیب اور فائز المرام انسان ہے، اگرچہ اس دنیا میں اس کو پیٹ بھر کر کھانے کو بھی نہ ملا ہو، اور تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا بھی نصیب نہیں ہوا ہو۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان و یقین کی دولت کتنی بڑی دولت ہے، جس سے حضرت حق جَلّ جَلالہُ نے محض اپنی رحمت و عنایت سے ہمیں نوازا ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اور دولت ایمان سے محرومی کتنی بڑی محرومی اور کس قدر ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top