Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 86
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١٘ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠   ۧ
اُولٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِیْنَ : وہ جنہوں نے اشْتَرَوُا : خریدلیا الْحَيَاةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْآخِرَةِ : آخرت کے بدلے فَلَا : سو نہ يُخَفَّفُ : ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
(یقینا) یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کی زندگی کو برباد کر کے دنیا کی زندگی خرید لی ہے نہ تو ان کے عذاب میں کمی ہوگی ، نہ کہیں سے وہ مدد حاصل کرسکیں گے
دُنیا کی خاطر آخرت کو برباد کیا لیکن دنیا بھی ہاتھ نہ آئی : 167: آخرت کا تصور خالصتاً اسلامی تصور ہے اس لیے کہ اسلام نے بار بار اس کا ذکر کیا ہے اور دونوں کے لیے الگ اصول و قواعد بیان کیے ہیں اور مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ دنیا کے اندر رہ کر دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنوارنا ہے اور دنیا کا کوئی ایسا فائدہ جو آخرت کو برباد کر دے اس کو حاصل کرنے سے باز رہنا ہے اور آخرت کا کوئی فائدہ جو دنیا کا نقصان برداشت کرنے سے حاصل ہوتا ہے خوشی سے دنیا کا نقصان برداشت کرنا ہے یہ تصور جس کو اسلام نے نشو ونما دی ، اس کو قوم بنی اسرائیل نے بالکل بھلا دیا تھا۔ گویا ان کی قومی زندگی میں یہ نیست و نابود ہوچکا تھا ، اسلام نے اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ زیر نظر آیت میں یہود کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم وہ لوگ ہو جنہوں نے دنیا کی خاطر آخرت کو برباد کیا تھا تم نے آخرت کو فی الواقعہ برباد کرلیا لیکن دنیا کو تم حاصل نہ کرسکے۔ جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں تم خائب و خاسر ہوتے اور یہی ہوا کہ دنیا کی ناکامی بھی تمہارا مقدر بن گئی اور تم ایسے نامراد ہوئے کہ ” پیاز بھی کھا گئے اور جوتے بھی “ اور کسی قوم کی بدبختی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے لیکن ڈھیٹ قوموں کو ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور ظاہر ہے کہ ڈھیٹ کہتے ہی اس کو ہیں جس کی لغت میں شرم نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ فرمایا جا رہا ہے اچھا ! دنیا کی ناکامیوں کا منہ دیکھ لیا ہے تو اب آخرت کے عذاب کے لیے تیار ہوجاؤ اور یاد رکھو کہ آخرت میں بھی تمہارا کوئی ممدو معاون نہیں ہوگا ، تمہارے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
Top