Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 86
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١٘ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠   ۧ
اُولٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِیْنَ : وہ جنہوں نے اشْتَرَوُا : خریدلیا الْحَيَاةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْآخِرَةِ : آخرت کے بدلے فَلَا : سو نہ يُخَفَّفُ : ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
یہی لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہے۔ تو نہ تو ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے)
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ ز فَلَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ (البقرۃ : 86) (یہی لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہے۔ تو نہ تو ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے) بنی اسرائیل کا اصل مرض اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی حقیقی بیماری کا ذکر فرمایا گیا ہے اور ان کی وہ دکھتی رگ پکڑی ہے جس میں خرابی کے باعث ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی مسموم ہو کر رہ گئی ہے۔ اشتراء کا مفہوم یہاں اِشْتَرَوْاکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ” خریدنے یا بیچنے “ کے ہیں۔ لیکن جب خریدنے یا بیچنے کی حقیقت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت ترجیح دینے کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں دوسری چیز لی۔ تو اس حوالے سے آپ مشتری بھی ہیں اور بائع بھی کیونکہ دونوں دو چیزوں کا آپس میں تبادلہ کرتے ہیں اور دونوں میں سے ہر آدمی جو چیز لیتا ہے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اسے دوسری چیز پر ترجیح دے رہا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس کا ترجمہ ترجیح دینا بھی کیا جاتا ہے اور یہاں یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا اصل روگ یہ تھا کہ انھوں نے آخرت پر دنیا کی زندگی یا دنیا کو ترجیح دی۔ ان کی نگاہوں میں زیادہ اہمیت آخرت کی نہیں بلکہ دنیا کی تھی اور انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ جس چیز کو ترجیح کے قابل سمجھتی ہے اسی کو عزت دیتی، اسی کی اہمیت سمجھتی، اسی کے لیے محنت کرنا ضروری سمجھتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کے لیے محنت کی جاتی ہے، وہی چیز ترقی کرتی ہے۔ جو قومیں حیات دنیا کو ترجیح دیتی ہیں، ان کی زندگی میں آپ کو ہوا اور پانی کی طرح چند چیزیں عام دکھائی دیں گی۔ ان کی مجلسوں میں بار اسے ملے گا، جس کے پاس دنیا زیادہ ہوگی۔ وہ رشتہ ناطہ اس سے جوڑیں گے، جس کے پاس دولت زیادہ ہوگی۔ وہ اپنا اقتدار اس کے حوالے کرنا پسند کریں گے، جو اپنے پاس دولت رکھتاہو۔ اور ان کی محنت کا ہدف وہ تمام چیزیں ہوں گی، جس کا تعلق دنیوی زندگی سے ہے۔ ان کے بازاروں میں مطعومات، مشروبات اور ملبوسات کے ڈھیر لگے ہوں گے۔ ان کی ملوں کی چمنیاں دھواں اگلتی ہوں گی اور ان کی مشینیں ریشم کی ڈھیر پیدا کرتی ہوں گی۔ ان کے کھیت سونا اگلتے ہوں گے، لیکن ان کی آبادیوں میں آپ کو ڈھونڈے سے کوئی انسان نہیں ملے گا۔ کروڑوں کی دکان پر بیٹھنے والاآپ دیکھیں گے کہ اس کی نظر آپ کی جیب پر ہے۔ جہاں ریشم کے ڈھیر بنے جاتے ہیں، وہیں آپ دیکھیں گے کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترستی ہیں۔ جہاں آپ کو بوٹ چمکتے دکھائی دیں گے، وہاں آپ دیکھیں گے کہ چہرے رنگ اور رونق سے اجاڑ ہوگئے ہیں۔ اکبر نے اپنے انداز میں بڑے دکھ سے یہ بات کہی تھی : نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کے دیکھو کیا چیز مر رہی ہے کیا چیز جی رہی ہے دنیا پر محنت کے نتیجے میں دنیا زندہ اور توانا ہوجاتی ہے لیکن انسانیت اور اقدارِ انسانیت مرجاتے ہیں۔ ہر بگڑنے والی قوم کی طرح بنی اسرائیل کا بھی یہی اصل روگ تھا۔ قرآن کریم نے ان کی اصل بیماری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انھوں نے جب آخرت پر دنیا کو ترجیح دی تو اس کے نتیجے میں ہوس، خود غرضی، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ، خیانت، بد عہدی، انسان دشمنی، حسد، کینہ، بغض، خدا فراموشی اور خود فراموشی جیسی لعنتیں وجود میں آئیں۔ جس کے نتیجے میں اللہ کی کتاب بھی ان کی دسترس سے نہ بچ سکی اور وہ بری طرح قومی توانائی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ ایسے لوگوں کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جب وہ عذاب کی گرفت میں آئیں گے تو ان سے نہ عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کو پہنچے گا جو انھیں عذاب سے بچاسکے۔ واحسرتا ! آج امت مسلمہ بھی بالکل اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اس کے تمام تر اہداف اور تمام تر کاوشیں حیات دنیا کے لیے وقف ہوچکی ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آخرت کا احساس روزبروز کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اللہ سے تعلق ٹوٹ رہا ہے، رسول اللہ ﷺ کا اتباع چھوٹ رہا ہے۔ انسانی قدریں روبہ زوال ہیں، خدا فراموشی بڑھتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں خود فراموشی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ ہم بھولتے جارہے ہیں کہ ہمارا ماضی کیا ہے ؟ کن چیزوں نے ہمیں ایک امت بنایا تھا، اس امت کے مقاصد کیا تھے ؟ اس کے لیے کیا چیزیں توانائی کا باعث تھیں اور کون سی چیزیں کمزوری کا سبب تھیں ؟ ہم اپنا اصل آستانہ تک بھولتے جارہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ ہم ہر آستانے پر سجدہ ریز ہورہے ہیں۔ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں روزبروز مائوف ہوتی جارہی ہیں۔ جن چیزوں سے ہماری شیرازہ بندی ہوئی تھیں وہ آہستہ آہستہ ہماری ملی زندگی سے خارج ہوتی جارہی ہیں۔ ہمیں اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ کل کو ہم اللہ کے سامنے کیا منہ لے کرجائیں گے اور رسول اللہ ﷺ کو کیا شکل دکھائیں گے ؟ والی اللہ المشتکیٰ وھوالمستعان
Top