Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 86
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١٘ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠   ۧ
اُولٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِیْنَ : وہ جنہوں نے اشْتَرَوُا : خریدلیا الْحَيَاةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْآخِرَةِ : آخرت کے بدلے فَلَا : سو نہ يُخَفَّفُ : ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی خریدد لی ہے آخرت کے معاوضہ میں،294 ۔ سو ان پر سے نہ عذاب ہلکا کیا جائے گا،295 ۔ اور نہ انہیں مدد ہی پہنچے گی،296 ۔
294 ۔ حالانکہ آخرت کا سودا بھی بہت ارزاں تھا۔ ایمان وطاعت سے اسے بہ آسانی خرید سکتے تھے) یہود کی مذہبی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں فکراخروی باقی ہی نہیں رہ گئی تھی، ان کے مقدس مذہبی نوشتوں تک کی تعلیمات کا خلاصہ صرف یہ رہ گیا تھا کہ مذہب کی راہ پر چلو تاکہ دنیوی فلاح حاصل ہو، قوم کو آزادی ملے، اور تم ایک اقبال مند قوم بن جاؤ۔ آخرت کی جزا وسزا، جس سے قرآن مجید بھرا پڑا ہے، اس سے حد یہ ہے کہ توریت تک تقریبا خالی ہے۔ 295 ۔ (آخرت میں) شدید ترین عذاب الہی ابھی اوپر ہی والی آیت میں آچکا ہے۔ اب تاکیدا ارشاد ہورہا ہے کہ اس بےپناہ عذاب سے رہائی پانے کا کیا ذکر ہے، تخفیف تک کی صورت اس میں ممکن نہ ہوگی۔ (آیت) ” فلا “ کیکا ترجمہ ” سو “ سے کیا گیا ہے، مقصود یہ ہے کہ یہ عذاب تکذیب انبیاء کے جرم میں اس کی نتیجہ کے طور پر اور ایمان نہ لانے کی پاداش میں ہوگا۔ 296 ۔ (کہ ان کے اکابر و اجداد ہی آکر سفارش کردیں) یہود کو بڑا غرہ اسی کا تھا کہ ہم انبیاء مقبولین کی اولاد ہیں۔ ہمیں کیا غم ہے۔ ہماری نصرت وشفاعت کے لیے ہمارے یہ اسلاف کافی ہیں۔ قرآن کو اسی لیے اس عقیدہ کی تردید بار بار کرنی پڑی۔ اور مختلف پیرایوں میں انہیں تنبیہ کی گئی کہ قانون الہی کے باغیوں کا ہمدرد و سفارشی کوئی بھی نبی یا ولی نہیں ہوسکتا۔ اور جو ایمان سے خالی ہیں ان کی امداد ونصرت کسی سمت وجہت سے بھی نہ ہوگی۔
Top