Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب کہا موسیٰ نے6 اپنے گھر والوں کو میں نے دیکھی ہے ایک آگ   اب لاتا ہوں مہارے پاس وہاں سے کچھ خبر یا لاتا ہوں انگارا سلگا کر شاید تم سینکو
6:۔ یہ پہلا قصہ ہے اور پہلی علت جو پہلے دعوے سے متعلق ہے اس قصے کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) عالم الغیب تھے۔ اس واقعہ میں ایمان والوں کے لیے ہدایت بھی ہے اور بشارت بھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدت اجارہ پوری کر کے جب اپنے اہل بیت یعنی بیوی کو ساتھ لے کر مدین سے مصر روانہ ہوئے تو راستے میں وادی طوی میں رات آگئی رات اندھیری تھی اس لیے راستہ بھول گئے اور سردی بھی شدت کی تھی۔ اسی اثنا میں ایک طرف آگ دکھائی دی تو بیوی سے فرمایا تم یہاں ٹھہرو میں آگ کے پاس جاتا ہوں وہاں کوئی آدمی ہوگا اس سے راستہ پوچھوں گا اگر کوئی موجود نہ ہوا تو کم از کم سینکنے تاپنے کے لیے انگارا ہی لے آؤں گا۔ شھاب ای شعلۃ مضیئۃ (مدارک ج 3 ص 154) ۔ ” قبس “ اسم مفعول کے معنوں میں ہے اور ” شھاب “ کی صفت ہے یا اس سے بدل ہے ای بشعلۃ نار مقبوسۃ ای ماخوذۃ من اصلھا فقبس صفۃ شھاب او بدل منہ (روح ج 19 ص 159) ۔
Top