Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 80
وَ لَا یَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِكَةَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا١ؕ اَیَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۠   ۧ
وَ : اور نہ لَا يَاْمُرَكُمْ : نہ حکم دے گا اَنْ : کہ تَتَّخِذُوا : تم ٹھہرؤ الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی اَرْبَابًا : پروردگار اَيَاْمُرُكُمْ : کیا وہ تمہیں حکم دے گا بِالْكُفْرِ : کفر کا بَعْدَ : بعد اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان
اور نہ یہ کہے تم کو کہ ٹھہرا لو فرشتوں کو اور نبیوں کو رب114 کیا تم کو کفر سکھائے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہوچکے ہوف 115
114 یعنی جس طرح خدا کا کوئی پیغمبر لوگوں کو اپنی پکار اور عبادت کی دعوت نہیں دے سکتا اسی طرح وہ اللہ کے سوا دوسرے پیغمبروں اور فرشتوں کی پکار اور عبادت کی تلقین وتبلیغ بھی نہیں کرسکتا۔ 115 استفہام تعجب اور انکار کیلئے ہے یعنی یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جب تم توحید کا اقرار کرچکے ہو تو کوئی پیغمبر تمہیں کفر اور شرک کرنے کا حکم دے اس سے معلوام ہوا کہ خدا کے سوا کسی کو (خواہ وہ پیغمبر ہو یا فرشتہ) خدائی صفات میں شریک ماننا۔ خدا کے سوا کسی کی عبادت کرنا اور حاجات میں پکارنا کفر ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کی طرف شرکیہ عقائد کی نسبت کے بارے میں حضرت شیخ (رح) نے ایک جامع قاعدہ بیان فرمایا۔ جو حسب ذیل ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ قرآن مجید یا اللہ کی کسی دوسری کتاب میں اللہ کے کسی نیک بندے کی طرف کوئی شرکیہ عبارت منسوب ہو کیونکہ اللہ کی تمام کتابیں مسئلہ توحید بیان کرنے کے لیے نازل ہوئیں اور سب میں مسئلہ توحید کے خلاف کوئی چیز نہیں۔ ہاں اگر کوئی عبارت متشابہات میں سے ہو تو اس کا حکم پہلے گذر چکا ہے کہ اس کا مطلب محکمات کی روشنی میں بیان کیا جائے اگر اس طرح بھی اسکا مطلب سمجھ میں نہ آئے تو اس کا علم خدا کے سپرد کیا جائے اور اگر ایسی شرکیہ عبارت قرآن یا آسمانی کتاب کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں منسوب کی جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ جس نیک بندے کی طرف وہ عبارت منسوب کی گئی ہے۔ حقیقت میں وہ نیک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ عبارت مردود ہے۔ دوم یہ کہ وہ بندہ تو واقعی بزرگ اور نیک ہے۔ اس لیے اب یا تو یہ کہا جائیگا کہ اس شرکیہ عبارت کی نسبت اس نیک بندے کی طرف صحیح نہیں شرک پسند لوگوں نے اس پر افترا کیا ہے لہذا وہ عبارت قابل رد ہے۔ جس طرح حضرت سید عبدالقادر جیلانی (رح) کی طرف ایک شرکیہ قصیدہ منسوب کردیا گیا ہے جو قطعاً حضرت شیخ کا نہیں ہے اور اگر اس عبارت کی نسبت اس بزرگ کی طرف صحت سے ثابت ہوجائے تو اس عبارت میں مناسب تاویل کر کے کتاب وسنت کے مطابق اس کا مطلب بیان کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ عبارت قابل تاویل بھی نہ ہو اور اس کا کوئی صحیح مطلب نہ نکل سکتا ہو تو اس عبارت کو بھی رد کردیا جائے گا اور سمجھا جائیگا کہ یہ بات اس بزرگ کی زبان سے غلبہ حال میں صادر ہوئی ہوگی جو احکام شرعیہ میں حجت نہیں۔ یہاں تک توحید کا بیان تھا آگے رسالت کا بیان ہے۔
Top