Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
ہرگز نہ حاصل کرسکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ130 اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے131
130 ۔ یہ خطاب بھی حسب سابق اہل کتاب ہی سے ہے اور اس سے انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی گئی ہے اور بِرّ سے ایمان وتقویٰ کا وہ درجہ مراد ہے جس کے حاصل ہونے پر آدمی ابرار کے زمرہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ جن کا اللہ تعالیٰ نے اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ میں ذکر فرمایا ہے۔ مَاتُحِبُّوْنَ سے دنیوی ریاست و دولت اور ظاہری شان و شوکت مراد ہے۔ اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تک تم اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب چیز کی قربانی نہیں دو گے۔ یعنی دنیوی شان و شوکت اور ریاست کو نہیں چھوڑو گے۔ اس وقت تک حقیقتِ خیر اور اصل تقویٰ نہیں پا سکو گے اس لیے ان دنیوی منافع کو چھوڑ کر حضرت خاتم النبیین ﷺ پر ایمان لاؤ اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرو۔ اور مسئلہ توحید کو مانو حضرت مولانا شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں، یعنی جس چیز سے دل بہت لگا ہو۔ اس کا خرچ کرنا بہت درجہ اور ثواب ہر چیز میں ہے۔ شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی جس کے تھامنے کو نبی کے تابع نہ ہوتے تھے۔ جب تک وہی نہ چھوڑیں اللہ کی راہ میں درجہ ایمان نہ پاویں۔ 131 ۔ اللہ کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کرو گے۔ خواہ وہ محبوب ہو یا غیر محبوب بہر حال اللہ کو اسکا علم ہے اور وہ اس کے مطابق اس کی جزا دیگا۔ باقی رہا خیر کامل کا اعلیٰ درجہ تو وہ صرف محبوب ترین چیز ہی کی قربانی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ والحاصل لئلا وصول الی المطلوب الا باخراج المحبوب (مدارک ج 1 ص 36)
Top