Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 44
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونک ماری جائے گی صور میں فَصَعِقَ : تو بیہوش ہوجائے گا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوائے مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ ۭ : چاہے اللہ ثُمَّ : پھر نُفِخَ فِيْهِ : پھونک ماری جائے گی اس میں اُخْرٰى : دوبارہ فَاِذَا : تو فورا هُمْ : وہ قِيَامٌ : کھڑے يَّنْظُرُوْنَ : دیکھنے لگیں گے
اور پھونکا جائے صور میں66 پھر بیہوش ہوجائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو اللہ چاہے پھر پھونکی جائے دوسری بار، تو فوراً کھڑے ہوجائیں ہر طرف دیکھتے
66:۔ ” ونفخ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ آخرت میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ اور وہ خود ہی تخت بادشاہی پر جلوہ افروز ہوگا اور مشرکین کے خود ساختہ سفارشی وہاں ان کے کام نہیں آئیں گے اور اللہ کی بارگاہ میں کوئی شفیع قاہر نہیں ہوگا۔ نفخہ سے نفخہ اولی مراد ہے جس سے تمام جاندار موت کی نیند سو جائیں گے۔ صعق سے مراد موت ہے۔ فنفخۃ الفزعھی نفخۃ الصعق والصعق ھنا الموت (بحر ج 7 ص 441) ۔ ” الا من شاء اللہ “ مستثنی کون ہیں اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ایک قول کے مطابق جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، ملک الموت، خازن جنت، زبانیہ وغیرہ یہ ضحاک کا قول ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں۔ مستثنی ذات باری تعالیٰ ہے۔ بعض کے نزدیک وہ لوگ مستثنی ہیں جو اسنفخہ سے پہلے موت کو جام پی چکے ہوں گے واللہ اعلم (کبیر، بحر، روح) ۔ ” ثم نفخ فیہ الخ “ یہ نفخہ ثانیہ یا نفخہ بعث ہے جس کے بعد سب زندہ ہو کر دیکھنے لگیں گے۔
Top