Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
فرمایا تحقیق وہ زمین حرام کی گئی ہے ان پر55 چالیس برس سر مارتے پھریں گے ملک میں سو تو افسوس نہ کر نافرمان لوگوں پر
55 قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ الخ یہ حضرت موسیٰ کی مناجات کا جواب ہے فرمایا ان کے تمردو سرکشی کی وجہ سے ہم نے ان کو یہ سزا دی ہے کہ وہ اب چالیس سال تک ارض مقدسہ میں داخل نہیں ہوسکیں گے اور زمین میں ذلت و رسوائی کے ساتھ در در کے دھکے کھاتے پھریں گے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ یَتِیْھُوْنَ کے معنی ہیں وہ بےعزت اور خوار رہیں کے یہ معنی نہیں کہ وہ چالیس سال جنگل میں گھومتے رہیں گے اور انہیں راستہ نہیں ملیگا جیسا کہ عام تفسیروں میں لکھا ہے کیونکہ اس جنگل کا طول چالیس میل اور عرض پندرہ میل سے کچھ زائد بیان کیا گیا ہے۔ پھر اسی میدان تیہ میں جب بنی اسرائیل نے غلے اور ترکاری کا مطالبہ کیا تو ان کو حکم دیا گیا۔ اِھْبِطُوْا مِصْراً یعنی کسی شہر میں چلے جاؤ جب انہیں راستہ نہیں ملتا تھا تو پھر مصر جانے کا حکم کیوں دیا گیا۔ مفسر خازن وغیرہ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اس میدان میں چھ لاکھ تھی اور روزانہ ستر ہزار مرتے تھے یہ بھی کذب محض اور اسرائیلیات سے ہے۔ نواب صدیق حسن خان نے تفسیر خازن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تفسیر کے لحاظ سے اچھی ہے لیکن واقعات کے اعتبار سے نصفہ من الاکذایب یعنی اس کا نصف جھوٹ ہے کیونکہ وہ یہود کی بہت سی محض جھوٹی باتیں نقل کرتا ہے بنی اسرائیل کی ذلت ورسوائی کا یہ واقعہ بیان کر کے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر انہوں نے بھی دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھائی اور جہاد سے انکار کردیا تو وہ بھی ذلیل و خوار ہونگے۔
Top