Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
ارشاد ہوا کہ اچھا تو پھر قطعی طور پر حرام کردی گئی ان پر وہ سرزمین چالیس سال تک کے لئے، بھٹکتے رہیں گے یہ (اس دوران) اسی علاقے میں، پس آپ کوئی غم (اور افسوس) نہیں کرنا ان نافرمان لوگوں پر،
70 بدکاروں کے انجام بد پر افسوس نہ کرنے کی ہدایت :ـسو حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ افسوس نہیں کرنا ان بدکار لوگوں کے انجام پر کہ یہ اسی انجام کے لائق تھے۔ اور یہ ان کے اپنے ہی عمل و کردار کا نتیجہ تھا۔ یہاں سے اس شفقت اور ہمدردی کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے جو حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصّلوۃُ والسلام ۔ کو اپنی امتوں سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک ان کو اس طرح غم اور افسوس نہ کرنے کی تلقین و ہدایت فرماتا ہے۔ تاکہ امت کی بےراہ روی پر ان کو فرط شفقت کی وجہ سے خواہ مخواہ غم اور تکلیف نہ اٹھانا پڑے ۔ صلوات اللہ وسلامُہ علیھم اجمعین ۔ اور دوسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ فسق و فجور کا انجام بہرحال برا اور ہلاکت و تباہی ہے۔ فاسق اور فاجر لوگوں کو جتنی بھی مہلت ملے ان کا انجام بہرحال بہت بھیانک ہونا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف حضرت موسیٰ سے فرمایا گیا کہ یہ لوگ چونکہ اپنے خود اختیار کردہ فسق اور معصیت و نافرمانی کی بنا پر اللہ کے انعام سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس لئے ان کی اس محرومی پر کسی افسوس کی ضرورت نہیں کہ اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں اپنی نافرمانی اور سرتابی کی بنا پر ۔ والعیاذ باللہ -
Top