Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ مقدس سر زمین ان پر چالیس سال کے لئے روک دی گئی یہ زمین کے ایک خاص حصے میں سرمارتے پھریں گے سو اے موسیٰ ! تو اس نافرمان قوم کے حال پر افسوس نہ کر4
4 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا بس اب یہ مقدس سر زمین ان پر چالیس سال کے لئے روک دی گئی اور یہ ملک چالیس سال تک ان کے ہاتھ نہ لگ سکے گا یہ زمین کے ایک خاص حصے میں یونہی سرمارتے پھریں گے یعنی چالیس سال تک نہ گھر واپس جاسکیں گے اور نہ ملک شام میں داخل ہونا نصیب ہوگا۔ لہٰذا اے موسیٰ ! تم اس نافرمان قوم کی حالت پر بالکل افسوس نہ کرو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی جانب میں دعا کی تو ارشاد ہوا اچھا ہم فیصلہ کئے دیتے ہیں اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ چالیس سال تک نہ تو ان کو گھر جانا نصیب ہوگا اور نہ ملک شام ان کے ہاتھ آئے گا بلکہ یہ ایک حصہ زمین میں حیران و سرگرداں مارے مارے پھریں گے۔ حضرت موسیٰ نے اس فیصلے کو سن کر اور قوم کا انجام معلوم کر کے اپنے غم اور افسوس کا اظہار کیا تو اس پر ارشاد ہوا کہ موسٰی اس نافرمان قوم پر کسی قسم کے افسوس اور غم کا اظہار نہ کیجیے اور یہ جو فرمایا کہ وہ سر زمین ان پر حرام کردی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحریم شرعی نہیں ہے بلکہ تحریم تکوینی ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوگیا ہوگا اسی طرح یہ تحریم کتب اللہ لکم کے بھی منافی نہیں ہے کیونکہ وہ کتب بھی تکوینی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کتب اللہ لکم مشروط تھا کہ اگر تم لوگوں نے اطاعت کی اور جہاد کیا تو وہ سر زمین تم کو ملے گی اور چونکہ ان لوگوں نے شرط کو پورا نہیں کیا اس لئے محروم رہے اور کتب اللہ لکم میں کسی مدت اور وقت کا ذکر نہیں ہے اور تحریم میں ایک خاص مدت کا ذکر ہے لہٰذا دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور اگر یہ شبہ کیا جائے کہ سزا تو بنی اسرائیل کو دی گئی لیکن حضرت موسیٰ اور ہارون کو ان کے ساتھ کیوں رکھا گیا اور یوشع اور کالب کو ان کے ساتھ کیوں رکھا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ارض تیہ میں حضرت موسیٰ اور ہارون اور ان کے ساتھیوں کا رہنا اس کو مستلزم نہیں کہ وہ بھی سزاء وہاں رکھے گئے تھے حضرت موسیٰ اور ہارون کا رہنا محض نگرانی کے لئے تھا جیسے جہنم میں فرشتے بھی ہوں گے یا جیل میں قیدیوں کی دیکھ بھال کے لئے محافظ و نگراں مقرر ہوتے ہیں اور ان کو جیل میں رہنا ہوتا ہے حالانکہ وہ قیدی نہیں ہوتے، اسی طرح موسیٰ اور ہارون بھی وہاں بنی اسرائیل کی ہدایت و اصلاح کے لئے رکھے گئے ارض تیہ میں ان کا رہنا سزاء نہ تھا۔ الغرض ! بنی اسرائیل چالیس سال تک اس ارضہ تیہ میں رہے اور ان کے کھانے پینے اور سایہ وغیرہ کا انتظام کردیا گیا۔ اس چالیس سال میں حضرت موسیٰ اور ہارون کی وفات ہوگئی اور اس قرن کے لوگ سب ختم ہوگئے اور ان کی اولاد جو ان ہوگئی حضرت یوشع ان پر نبی مقرر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع کے ہاتھ پر ملک شام کو فتح کرا دیا اور اس طرح کتب اللہ لکم کی بات پوری ہوگئی بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے جہاد کیا اور حضرت یوشع کی اطاعت کی اور ملک شام کو فتح کرلیا۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے عوج بنعنق کا ذکر کیا ہے لیکن ابن کثیر نے نہایت سختی کے ساتھ اس قبضے کا رد کیا ہے حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی وفات کا قصہ ہم نے تطویل کے خوف سے ترک کردیا ہے۔ ان دونوں پیغمبروں کی وفات کا حال مفسرین نے بیان کیا ہے۔ بہرحال ! اس واقعہ میں چند امور قابل غور ہیں۔ -1 اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے پیغمبر جو حکم دیں اس کو مانا جائے لیکن افسوس بنی اسرائیل نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی اولاد میں بیشمار نبی پیدا کئے اور ان کی اولاد میں بیشمار لوگوں کو سرداری اور فرماں روائی کے منصب پر فائز کیا اور موسیٰ ہارون جیسے ابوالعزم پیغمبر عطا فرمائے لیکن انہوں نے ان تمام احسانات کی قدر نہ کی اور نافرمانی کے جرم کا ارتکاب کیا اور سزا میں مبتلا کئے گئے۔ -2 جہاد کا ترک کردینا قوم کو ذلیل اور خوار کردیتا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے رہنا اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرتا ہے اور قوم کی عزت کا موجب ہوتا ہے۔ -3 انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے قائم مقام لوگوں کی مخالفت کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا موجب وبال اور باعث عقوبت ہوتا ہے۔ -4 انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنی امت کے ساتھ غایت شفقت و محبت ہوتی ہے اور ان کو امت کی تکلیف سے رنج ہوتا ہے۔ -5 جب ایک قوم نافرمانی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی نعمت سے محروم کردیتا ہے اور ان کی جگہ دوسروں سے کام لیتا ہے خواہ وہ دوسرے امتی کی اولاد ہوں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اہل کتاب کو یہ قصہ سنایا اس پر کہ اگر تم رفاقت نہ کرو گے پیغمبر کی تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی آگے اس پر قصہ سنایا ہابیل وقابیل کا کہ حسد مت کرو حسد والا مردود ہے۔ (موضح القرآن) آگے کی آیتوں میں جو قصہ مذکور ہے اس کا ربط تو حضرت شاہ صاحب نے بھی بیان کردیا۔ بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو بڑا گھمنڈ اس امر پر بھی تھا کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ہم چاہے کچھ بھی کرتے پھریں ہم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ اس لئے آگے پیغمبر کی نسبی اولاد کا ذکر فرمایا تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہابیل اور قابیل تو حضرت آدم کی اولاد تھے اور حوا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے لیکن نافرمانی کی وجہ سے قابیل کا حشر کیسا ہوا اور نبی کی اولاد ہونا کچھ کام نہ آیا۔ اسی واقعہ کی آگے کی آیتوں میں تفصیل بیان فرمائی ہے ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی جو ڑواں ہوتے تھے اور اس وقت ضرورت کی وجہ سے بہن بھائی کی شادی آپس میں جائز تھی مگر فرق اتنا ہوتا تھا کہ ایک بطن کا لڑکا اور دوسرے بطن کی لڑکی اور ایک بطن کی لڑکی اور دوسرے بطن کا لڑکا یعنی بطن کے فرق کو نسب کے فرق حکا حکم دے دیا گیا تھا چناچہ حسب معمول ایک لڑکی ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی اور ایک قابیل کے ساتھ ہوئی حضرت آدم (علیہ السلام) نے ضابطے ک موافق جو لڑکی ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی اس کا نکاح قابیل کے ساتھ اور قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی تھی اس کا نکاح ہابیل کے ساتھ کرنا چاہا مگر اتفاق سے جو لڑکی قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ زیادہ حسین تھی اور ہابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ زیادہ خوبصورت نہ تھی اس لئے قابیل نے اس شادی پر اعتراض کیا اور اس امر کی خواہش کی کہ میں اس لڑکی سے شادی کروں جو میرے ہمراہ پیدا ہوئی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بہت کچھ سمجھایا مگر قابیل رضا مند نہ ہوا اس پر حضرت آدم (علیہ السلام) نے جھگڑا ختم کرنی کی وجہ سے فرمایا تم دونوں بھائی اپنی اپنی کچھ نیاز اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کرو جس کی نیاز قبول ہوجائے گی اس لڑکی کی شادی اس سے ہوجائے گی کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) جانتے تھے کہ قابیل غلطی پر ہے اس کی نیاز قبول نہ ہوگی اور پھر یہ تکرار اور جھگڑے سے باز آجائے گا۔ چناچہ ہابیل ایک دنبہ لایا اور قابیل کچھ پھل لایا دونوں نے اپنی اپنی نیاز لا کر اس جگہ رکھ دی جو نیاز کے لئے مقرر تھی تب ایک آگ آسمان سے آئی اور ہابیل کی نیاز کھا گئی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق ہابیل کی نیاز مقبول سمجھی گئی لیکن قابیل قائل نہ ہو اور ہابیل کے پیچھے پڑگیا اور اس کو قتل کرنے کے در پے ہوگیا اور بالآخر ہابیل کو قتل کردیا لیکن یہ سمجھ میں نہ آیا کہ اس کی لاش کو کہاں چھپائے اور کس طرح چھپائے کہ آدم (علیہ السلام) کو اطلاع نہ ہو۔ اس وقت ہابیل کی عمر بیس سال کی تھی قابیل اس کی لاش کو لئے لئے پھرا اور آخر ایک کوے کے ذریعے اس کو دفن کا طریقہ بتایا گیا تب کہیں اس نے ہابیل کی لاش کو دفن کیا۔ آگے کی آیتوں میں اسی قصے کا بیان ہے۔ ابن کثیر نے اس موقعہ پر بہت سی روایتیں اور بہت سے اقوال نقل کئے ہیں مگر ہم نے اس روایت کا خلاصہ نقل کردیا ہے جو ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے نقل کی یہ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہابیل کے قتل کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت آدم (علیہ السلام) مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے اور بعض نے کہا ہابیل کے آنے میں ایک روز تاخی ہوگئی تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے قابیل کو بھیجا کہ اس کو دیکھ کر لائے چناچہ قابیل تلاش کرنے گیا اور ایک چھرا اپنے ہمراہ لے گیا اور راستے میں جب کہ ہابیل آ رہا تھا اس کو قتل کردیا۔ (واللہ اعلم) حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ (تسہیل)
Top