Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
تجھ کو معلوم نہیں کہ66 اللہ ہی کے واسطے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی عذاب کرے جس کو چاہے اور بخشے جس کو چاہے اور اللہ سب چیز پر قادر ہے
66 اَلَمْ تَعْلَم الخ اس کا تعلق لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ سے ہے ابتدا میں مسئلہ توحید اور شرک فی التصرف کی نفی کا بیان تھا اور یہی اصل مقصد سورت ہے اس کے تحت ان عیسائیوں پر کفر کا فتوی لگایا جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا شریک فی التصرف بناتے تھے اس کے بعد فرمایا اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے جہاد کرو اسلیے اب بعد عہد کی وجہ سے اَلَمْ تَعْلَمْ کی تعبیر سے اصل مسئلہ توحید اور نفی شرک فی التصرف کی یاد دہانی کرائی گئی جیسا کہ سورة بقرہ میں مختلف احکام بیان کرنے کے بعد رکوع 32 میں اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا فرما کر ان لوگوں کے حال کی طرف متوجہ فرمایا جو موت کے ڈر سے گھر چھوڑ کر بھاگے تھے مگر پھر بھی موت سے بچ نہ سکے۔ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰواتِ خبر کی تقدیم افادہ حصر کے لیے ہے یعنی آسمانوں اور زمین بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے تمام تصرفات اور اختیارات بھی اسی کے قبضے میں ہیں نہ کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ کے قبضے میں وَاللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ یہ بھی حصر پر محمول ہے یعنی ہر چیز پر قادر بھی صرف اللہ ہی ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ علیہما الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی یہ صفات مختصہ اس دعوی پر واضح دلیل ہیں کہ ساری کائنات میں مافوق الاسباب متصرف و مختار صرف اللہ ہی ہے اور تصرف میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ فائدہ : یہاں اگرچہ مقصود تو شرک فی التصرف کی نفی ہے لیکن اس کے ضمن میں شرک فعلی کی بھی نفی ہو رہی ہے کہ جب غیر اللہ مثلاً حضرت مسیح، ان کی والدہ اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام ہر چیز پر متصرف اور ہر چیز پر قادر بھی نہیں تو پھر ان کے نام کی نیازیں بھی نہ دو اور ان کے لیے تحری میں بھی نہ کرو۔ یہاں تک سورت کا پہلا حصہ ختم ہوا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے لیے تسلیہ اور منافقین اور یہود کے لیے زجریں مذکو رہیں یہود کے علماء اور گدی نشین خود شرک اعتقادی اور شرک فعلی کرتے تھے اور منافقین یعنی رؤسا کا گروہ بھی دل سے ان ہی کا طرفدار تھا اس طرح یہ دونوں فریق آنحضرت ﷺ کے مخالف تھے جن پر زجریں کی گئیں۔ یہ سلسہ یَا ایُّھَا الرَّسُوْل الخ سے شروع ہو کر رکوع 9 کے آخر سَاءَ مَایَحْکُمُوْن تک چلا گیا ہے۔
Top