Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
کیا تو نے نہیں جانا کہ بیشک اللہ ہی ہے جس کے پاس آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، عذاب دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور بخش دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔۔ : یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے کہ چور کو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی۔ (موضح) اس آیت کا خطاب تو رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن مراد تمام لوگ ہیں، یا ہر شخص سے خطاب ہے۔ (فتح البیان) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کسی کو رعایت نہیں مل سکتی، جو بھی جرم کرے گا اسے سزا ملے گی، اس معاملے میں کسی بڑے مرتبے والے کو چھوٹے پر فوقیت نہیں، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس جرم پر جو سزا چاہے مقرر فرما دے، اسے مخلوق پر کل اختیار ہے۔ (قرطبی) ایک ملحد شاعر ابو العلاء معری نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر اعتراض کیا کہ دیکھیے ایک ہاتھ جس کی دیت پچاس اونٹ تھی، وہ چوتھائی دینار کی حقیر مالیت پر کاٹ دیا گیا، یہ عجیب تناقض ہے، پھر قرآن پر اعتراض کی وجہ سے گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگ گیا۔ چناچہ بہت سے علماء نے اس کا جواب لکھا، قاضی عبد الوہاب نے کہا : ”لَمَّا کَانَتْ اَمِیْنَۃً کَانَتْ ثَمِیْنَۃً فَلَمَّا خَانَتْ ھَانَتْ“ ”جب تک ہاتھ امین تھا قیمتی تھا جب خیانت کی تو بےقدر ہوگیا۔“ (ابن کثیر) سزاؤں کا ایک مقصد گناہوں سے روکنا بھی ہے، ہاتھ کاٹنے سے روکنے کے لیے ہاتھ کی دیت زیادہ رکھنا ضروری تھا، تاکہ لوگ کسی کا ہاتھ کاٹنے سے بچیں اور چوری سے روکنے کے لیے ہاتھ کاٹنے کا نصاب کم مقرر کرنا ضروری تھا، تاکہ لوگ چوری سے بچیں۔
Top