Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں خدا ہی کی سلطنت ہے ؟ جس کو چاہے عذاب کرے اور جسے چاہے بخش دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت 40 چور اس شخص کو کہا اجتا ہے جو کسی دوسرے کا قابل احترام مال، اس کی رضا مندی کے بغیر خفیہ طور پر ہتھیاتا ہے۔ چوری کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جو بدترین سزا کا موجب ہے یعنی دائیاں ہاتھ کاٹنا، جیسا کہ بعض صحابہ کی قرأت میں آتا ہے۔ ہاتھ کا اطلاق کلائی کے جوڑ تک ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے اور اس کے بعد اسے تیل میں داغ دیا جائے تاکہ رگیں مسدود ہوجائیں اور خون رک جائے۔ سنت نبوی نے اس آیت کریمہ کے عموم کو متعدد پہلوؤں سے مقید کیا ہے۔ (1) حفاظت : چوری کے اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو، یہاں مال کی حفاظت سے مراد وہ حفاظت ہے جو عادتاً کی جاتی ہے۔ چورنے اگر کسی ایسے مال کی چروی کی ہو جو حفاظت میں نہ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (2) نصاب : چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے مال مسروقہ کا نصاب ضروری ہے یہ نصاب کم از کم ایک چوتھائی دینا ریا تین درہم یا ان میں سے کسی ایک کے برابر ہو۔ مال مسروقہ اگر اس نصاب سے کم ہو تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ شاید یہ لفظ سرقہ اور اس کے معنی سے ماخوذ ہے کیونکہ لفظ ” سرقہ “ سے مراد ہے کوئی چیز اس طریقے سے لینا جس سے احتراز ممکن نہ ہو اور یہ اسی وقت ہی ہوگا کہ مال کو حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہو۔ اگر مال کو حفاظت کے ساتھ نہ رکھا گیا تو اس مال کا لینا شرعی سرقہ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ تھوڑی اور حقیر سی شے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ قطع ید کے لئے کم ترین نصاب مقرر کرنا ضروری ہے، اس لئے نصاب شرعی ہی کتاب اللہ کی تخصیص کرنے والا ہوگا۔ چوری میں ہاتھ کاٹنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے مال محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس عضو کو بھی کٹ جانا چاہیے جس سے جرم صادر ہوا ہے۔ دائیاں ہاتھ کاٹ دیئے جانے کے بعد اگر چور دوبارہ چروی کا ارتکاب کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر پھر چوری کرے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو دائیاں پاؤں کاٹ دیا جائے اور بعض فقہا کہتے ہیں کہ اس کو قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مرجائے۔ (جزآء بما کسبا) ” یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کمایا، یعنی یہ قطع ید، چور کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے لوگوں کا مال چرایا ہے (نکالا من اللہ) ” یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے “ یعنی یہ سزا چور اور دیگر لوگوں کو ڈرانے کے لئے ہے، کیونکہ چوروں کو جب معلوم ہوگا کہ چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، تو وہ چوری سے باز آجائیں گے (واللہ عزیز حکیم) ” اور اللہ زبردست، صاحب حکمت ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اس لئے اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا کم دیا ہے۔ (فمن تاب من بعد ظلمہ وا صلح فان اللہ یتوب علیہ ان اللہ غفور رحیم) ” پس جس نے توبہ کی اپنے ظلم کے بعد اور اصلاح کی، تو اللہ قبول کرتا ہے توبہ اس کی، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے “ پس جو کوئی توبہ کرتا ہے، گناہوں کو ترک کر کے اپنے اعمال اور اپنے عیوب کی اصلاح کرلیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے زمین اور آسمان میں تکوینی اور شرعی تصرف کرتا ہے اور اپنی حکمت، بےپایاں رحمت اور مغفرت کے تقاضے کے مطابق وہ بخشتا ہے یا سزا دیتا ہے۔
Top