Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں خدا ہی کی سلطنت ہے؟ جس کو چاہے عذاب کرے اور جسے چاہے بخش دے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
الم تعلم (اے نبی ! ) کیا آپ کو معلوم نہیں۔ خطاب رسول اللہ ﷺ کو اور رُوئے خطاب امت کی طرف ہے یا مخاطب عام ہے یعنی اے انسان کیا تو نہیں جانتا۔ ان اللہ لہ ملک السموات والارض کہ اللہ ہی کی ہے حکومت آسمانوں کی اور زمین کی۔ یعذب من یشآء ویغفرلمن یشآء (گناہگاروں میں سے) وہ جس کو (عذاب دینا) چاہے گا عذاب دے گا (صغیرہ گناہ ہو یا کبیرہ کیونکہ عدل کا تقاضا یہ ہی ہے کہ گناہ کی سزا دی جائے) اور (اپنے فضل سے جس کے گناہ) بخشنا چاہے گا بخش دے گا (یہ اس کے فضل کا تقاضا ہے خواہ توبہ کی ہو یا نہ کی ہو) واللہ علی کل شی قدیر اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ‘ عذاب دینے پر بھی اور معاف کردینے پر بھی۔ لازم اس پر کچھ نہیں۔ عذاب کا ذکر مغفرت سے پہلے اس لئے کیا کہ عذاب کا استحقاق مغفرت پر مقدم ہے۔ تقدیم عذاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس جگہ صفت قدرت کو ظاہر کرنا مقصود ہے اور مغفرت سے زیادہ عذاب دینے میں قدرت کا ظہور ہوتا ہے۔ مغفرت میں تو مغفور کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی مگر عذاب میں عذاب پانے والے کی طرف سے رکاوٹ ہوتی ہے (یعنی عذاب کو قبول کرنے سے اس کی طبیعت انکار کرتی ہے مگر عذاب دینے والے کی قدرت اس پر جبراً عذاب ڈالتی ہے) واللہ اعلم۔
Top