Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے ‘ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے ‘ وہی جس کو چاہے گا سزا دے گا اور جس کو چاہے گا بخشے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہ َ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَ اللہ ُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُٗ ۔ (المائدہ : 40) ” کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے ‘ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ وہی جس کو چاہے گا سزا دے گا اور جس کو چاہے گا بخشے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اس آیت کریمہ میں پورے سلسلہ مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے ‘ ایک جامع بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے قانون کی تعمیل میں حیل و حجت کرنا یا اس کی حکمتوں کو سمجھنے میں پس و پیش کرنا ‘ پھر اس کے نفاذ میں بہانے تراشنا ‘ اُخروی نجات کے لیے مصنوعی سہارے تلاش کرنا اور سمجھنا کہ بخشش اور مغفرت میں شاید ان کا بھی کوئی دخل ہے ‘ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ تم اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان پر حکومت کس کی ہے ‘ یہ پوری کائنات کس کے حکم سے زندگی کا رزق پا رہی ہے ؟ ظاہر ہے وہ پروردگارِ عالم ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کے حکم سے وجود میں آیا ہے اور اسی کے حکم سے باقی ہے۔ حاکمیت بھی اسی کو زیب دیتی ہے کیونکہ کبریائی اور حاکمیت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب حکومت اور حاکمیت کا حق اس کا ہے تو پھر وہ جسے چاہے سزا دے اور جس کی چاہے مغفرت کرے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ‘ اس کی قدرت سے کوئی چیز بھی بعید نہیں ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو پھر اس کے احکام کی تعمیل میں پس و پیش کرنا یا اس کے قانون کے مقابلے میں دوسرے سہارے تلاش کرنا ‘ جس کے نتیجے میں خرابیوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے ‘ کسی طرح بھی مناسب نہیں بلکہ یہی ساری نافرمانیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے جب تک اس پر قابو نہیں پایا جائے گا اور اس حقیقت کو مذہب و دین کی روح کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا ‘ اس وقت تک نہ حدود اللہ کی حکمت سمجھ میں آئے گی اور نہ صحیح ذوق عمل نصیب ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ جب دیکھتے تھے کہ اہل کتاب اس بنیادی حقیقت کو ‘ جس کا ابھی ذکر ہوا ‘ بخوبی جانتے ہیں کیونکہ یہی ہر مذہب کی اساس ہے ‘ لیکن ان کا رویہ اعتقاد اور عمل دونوں کے حوالے سے اس کے بالکل برعکس ہے تو آپ کو شدید صدمہ ہوتا تھا۔ آپ دیکھتے تھے کہ اوس اور خزرج میں سے جو لوگ بظاہر مسلمان ہوئے ہیں ‘ لیکن تاحال یہودیوں کے زیر اثر ہیں ‘ اسی طرح وہ لوگ بھی جو یہود میں سے نام کے مسلمان ہیں ‘ لیکن دراصل دونوں گروہ منافق ہیں ‘ وہ زندگی کے ہر اہم مسئلے میں بجائے اس کے کہ رسول اللہ ﷺ سے رجوع کریں ‘ ان کی کوشش یہ ہوتی کہ یہودیوں سے راہنمائی حاصل کریں اور یہود کی عدالتوں سے فیصلے کروائیں ‘ حالانکہ ایمان کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ آدمی راہنمائی اور فیصلہ لینے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے ‘ لیکن جب تک کسی میں حقیقی ایمان پیدا نہیں ہوتا ‘ اس میں یہ نفاق کی سب سے بڑی علامت زندہ رہتی ہے کہ وہ انفرادی عبادات میں بعض دفعہ شریک بھی ہوتا ہے ‘ لیکن اجتماعی زندگی میں اور راہنمائی اور قانون کے حوالے سے کبھی بھی اسے یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ ان منافقین کا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ ایک طرف تو ایمان لانے کے دعوے دار تھے اور دوسری طرف بار بار یہود کے پاس جا کر ان سے رہنمائی لیتے تھے اور انہی کے سکھانے ‘ پڑھانے سے آنحضرت ﷺ کی مجلس میں آ کر مسائل بھی پیدا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے بعض دوسری سورتوں میں بھی منافقین کی اس روش کا بار بار نوٹس لیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا : (کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں ‘ وہ چاہتے یہ ہیں کہ زندگی کے فیصلے طاغوت سے حاصل کریں حالانکہ انھیں طاغوت سے ہر طرح لاتعلق ہونے کا حکم دیا گیا ہے) (النساء 4: 60) پھر آگے چل کر پروردگار نے قسم کھا کر نہایت تاکید سے یہ بات فرمائی کہ : (تم کبھی بھی حقیقی مومن نہیں ہوسکتے ‘ تاوقتیکہ اپنے متنازعہ معاملات میں صرف آنحضرت ﷺ کو فیصل تسلیم نہ کرلو اور ان کے فیصلوں کے سامنے گردن نہ جھکائو) (النساء 4: 65) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روش ہر دور کے منافقین کی رہی ہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں اسلام کا بڑا دعویٰ ہے لیکن وہ اپنی تہذیبی ‘ تمدنی اور قانونی زندگی میں کبھی اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ راہنمائی صرف اللہ اور اسکے رسول سے ہی لی جاسکتی ہے۔ جن حالات میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ‘ اس وقت ایک مشکل یہ تھی کہ ابھی تک اسلام کی اس نوزائیدہ ریاست کا دائرہ بہت محدود تھا۔ یہود کے دو قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ مدینہ کے مضافات میں رہتے تھے اور زندگی کے بیشترمعاملات میں انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل تھا۔ ان کی اپنی عدالتیں تھیں ‘ جن میں وہ یہود کے فیصلے کرتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ اسلام عدل اور مساوات کا فی الواقع علمبردار ہے اور بارگاہِ رسالت سے ہر ایک کو انصاف مل سکتا ہے تو بعض دفعہ ان کے عوام یا ان میں سے وہ لوگ ‘ جو بظاہر اسلام قبول کرچکے تھے ‘ وہ اپنے فیصلہ طلب مسائل میں آنحضرت کی خدمت میں آنے کی کوشش کرتے تو ان کے لیڈر اور راہنماان کو یہ پٹی پڑھا کر بھیجتے کہ دیکھو ! اگر تمہیں وہاں سے فیصلہ اپنی خواہش کے مطابق ملے تو اسے قبول کرنا ‘ ورنہ رد کردینا۔ رسول اللہ ﷺ ان کے اس طرز عمل کو دیکھ کر سخت غمزدہ ہوتے کہ ایک طرف تو یہ لوگ اپنے آپ کو اللہ کے دین کا پیروکار کہتے ہیں اور دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ یہ اپنی خواہشات کے سوا کسی چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ چناچہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کی طرف آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو متوجہ فرمایا۔
Top