Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نہیں جانتا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اسی کی مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُعَذِّبُ : عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے وَيَغْفِرُ : اور بخش دے لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے مخاطب کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے لئے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی وہ جس کو چاہے عذاب کرے اور جس کو چاہے بخش دے اور اللہ تعالیٰ ہر شئی پر پوری طرح قادر ہے۔1
1 اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کی سزا یہ ہے کہ اے حکام ان دونوں کے داہنے ہاتھ کاٹ ڈالو عقوبت اللہ تعالیٰ کی جانب سے بطور سزا کے ان کی کمائی کا عوض ہے اور اللہ تعالیٰ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے پھر جو شخص اپنے اس گناہ اور زیادتی کے بعد توبہ کرے اور شرعی قاعدے کے موافق تائب ہوجائے اور آئندہ کے لئے اپنے اعمال کی اصلاح اور درستی کرے تو اللہ تعالیٰ عفو و کرم کے ساتھ اس پر توجہ فرمائے گا یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربانی کرنے والا ہے اے مخاطب کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب آسمانوں اور زمین کی حکومت ثابت ہے اور سب آسمان و زمین کی سلطنت اسی کے لئے ہے وہ جس کو چاہے عذاب کرے اور سزا دے اور جس کو چاہے معاف کردے اور مغفرت فرما دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ چوری خواہ مرد کرے یا عورت دونوں کی سزا یہ ہے کہ ان کا داہنا ہاتھ پہنچے کے پاس سے کاٹ دیا جائے اور کاٹنے کے بعد داغ دیا جائے تاکہ خون بند ہوجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جزا ان کی کمائی اور ان کے کسب کے بدلے بطور سزا اور عقوبت کے مقرر ہے رہی یہ بات کہ اتنی سخت سزا کیوں مقرر فرمائی تو اللہ تعالیٰ عزیز ہے یعنی بڑی قوت کا مالک اور بڑے غلبہ والا ہے وہ جو سزا چاہے مقرر کرے کسی کو اعتراض کا حق نہیں اور وہ بڑی حکمت اور دانش کا مالک ہے جو سزا مقرر کرتا ہے اور میں حکمت کے موافق ہوتی ہے اور جرائم کے انسداد کی غرض سے وہی مناسب اور موزوں ہوتی ہے یہ سزا تو چور کو دنیا میں دی جائے۔ رہا آخرت کی گرفت کا معاملہ تو اگر کوئی شخص اپنی اس حرکت قبیحہ کے بعد تائب ہوجائے اور اپنی درستی کرنے اور توبہ بھی قواعد ستر عیہ کے موافق کرے یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی سے توبہ کرے اور صاحب مال کا سامان موجود ہو تو واپس کر دے اور اگر تلف ہوگیا ہو تو ضمان دے یا صاحب حق سے معاف کرائے اور آئندہ کے لئے اپنے چال چلن صحیح رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنے عفو و کرم اور اپنی نظر رحمت کے ساتھ اس کے حال پر توجہ فرمائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی عام شان معاف کردینے اور مہربانی کرنے کی ہے وہ بڑا غفور رحیم ہے اور چوروں اور ڈاکوئوں کے متعلق جو سزائیں تجویز فرمائی ہیں تو کیا تم لوگ جانتے نہیں کہ تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور چونکہ وہی مالک ہے اور حکومت کا حق اسی کو حاصل ہے اس لئے وہ جس کو چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور جو سزا چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اپنی حکومت میں ہر قسم کے قوانین نافذ کرنے اور سزا دینے اور معاف کرنے کی پوری قدرت اسے حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اس پر فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے چور کو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی (موضح القرآن) اس موقعہ پر چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں ۔ (1) سرقہ شریعت میں اس چوری کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص مال محفوظ کی چوری کرے خواہ یہ حفاظت کسی مکان یا صندوقچہ میں تفل لگا کر کی ہو یا کسی محافظ کو مقرر کر کے کی ہو ۔ (2) جو مال چورنے چرایا ہو وہ دس درہم کا ہو اگر دس درہم یا ایک دینار سے کم ہوگا تو ایسے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (3) پہلی مرتبہ چور کا داہنا ہاتھ پہنچے تک کاٹ کر خون بند کرنے کی غرض سے بقیہ ہاتھ کو داغ لگا دیا جائے ۔ یعنی گرم تیل میں ڈبو دیا جائے اگر دوبارہ پھر چوری کرے تو بایاں پائوں کاٹ دیا جائے اگر اس کے بعد پھر کوئی چوری کرے تو اس کا کوئی عضو نہ کاٹا جائے بلکہ اس وقت تک قید کردیا جائے جب تک وہ توبہ نہ کرے اور قرائن سے اس کا تائب ہونا معلوم نہ ہوجائے۔ (4) حدود الٰہی کے متعلق ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتیں جیسا کہ مخرمیہ عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دینے میں حضور ﷺ نے اسامہ بن زید ؓ کی سفارش پر فرمایا تھا الشفع حد من حدود اللہ کہ کیا تو حدود الٰہی میں سے کسی حد کی سفارش کرتا ہے اور جیسا کہ صفوان بن امیہ کے واقعہ میں آتا ہے کہ وہ اپنی چادر سر کے نیچے رکھ کر سو رہے تھے ایک چور نے چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچ لی انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور حضور ﷺ کے روبرو پیش کردیا چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچ لی انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور حضور ﷺ کے روبرو پیش کردیا حضور ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا صفوان نے یہ سن کر کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے یہ چادر اس کو صدقہ کردی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ھلا قبل ان تاتینی بہ یعنی صدقہ دنیا تھا تو میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کردی۔ (5) سرقہ کی تعریف اور سرقہ کے نصاب میں چونکہ آئمہ میں اختلاف ہے اس لئے ہم نے صرف حنفیہ کا مذہب اختیار کیا ہے حنفیہ کے نزدیک نصاب دس درہم ہیں اور درہم بھی کھرے ہوں کھوٹے اور مغشوش نہ ہوں اور جس مال کو چرایا ہو وہ مال محفوظ ہو ایسا محفوظ کہ اس کے محفوظ ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو اور اسی طرح وہ مال جس کی چوری کی ہو وہ مال مالک کی ملک ہو اور چور کی ملکیت کا اس میں کوئی شبہ نہ ہو ان مسائل کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں ملے گی۔ (6) آج کل بعض جاہل ان سزائوں کو وحشیانہ سزائیں کہتے ہیں حالانکہ موجودہ تہذیب میں جب کسی جرم کا انسداد مقصود ہوتا ہے تو اس سے زیادہ سخت تجویز کی جاتی ہیں چونکہ شریعت الٰہیہ کے پیش نظر امن عامہ کی خاص رعایت ہے اور خدا تعالیٰ اپنی مخلوق میں امن اور انصاف چاہتا ہے اس لئے ایسے جرائم کی سزا اس نے سخت رکھی ہے جس کا اثر لوگوں کی جان یا مال پر پڑتا ہے اور یہ سزا اس کی حکمت کے عین مطابق اور امن عامہ کی رعایت کے بالکل کے بالکل موافق ہے اور جرائم کے حقیقی انسداد کے لئے بےانتہا مئوثر ہے۔ (7) چونکہ شریعت میں اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ ڈالیت و اس کی دیت پانچ سو دینار مقرر ہے اور اگر کوئی ایک دینار چوری کرے تو اس کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر ہے۔ اس لئے بعض ملحدین نے اس پر اعتراض کیا تھا چناچہ ابو العلا مصری نے اس نصاب مذاق اڑایا اور ایک رباعی بھی کہی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس ہاتھ کی دیت پانچ سو دینار ہوں وہ ایک دینار کے بدلے میں کاٹا جائے اس تناقض کے متعلق سوائے اس کے کیا کہا جائے کہ ایک انسان سکوت اختیار کرے اور آگ سے پناہ مانگے اس بےدین کے ان معترضانہ اشعار کا اس وقت کے علماء نے جواب دیا کسی نے اشعار کے جواب میں اشعار کہے کس نے نثر میں جواب دیا۔ علما کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ امانت دار ہاتھ کی قیمت اس کی امانت داری نے بڑھائی تھی اور جو ذلت اس ہاتھ کو نصیب ہوئی وہ خیانت کے باعث ہوئی تو اے ملحد اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھ جس ہاتھ کی دیت پانچ سو دینار تھی اسی ہاتھ کی قیمت چوری کرنے کی وجہ سے ایک دینار یا چوتھائی دینار رہ گئی۔ مدعا یہ تھا کہ واقعی انسانی ہاتھ کی قیمت پانچ سو دینار تھی لیکن یہ قیمت اس ہاتھ کی تھی جو سچا اور امانت دار تھا لیکن جب وہ چوری کی خیانت میں مبتلا ہوگیا تو اس ہاتھ کی آبرو گرگئی ۔ ایک دینار یا ربع دینار ہم نے اس لئے کہا کہ حنفیہ کے نزدیک سرقہ کا نصاب ایک دینار ہے اور شوافع کے نزدیک ربع دینار ہے اور بعض کے نزدیک آیت بالکل ہی اپنے عموم پر ہے یعنی کوئی ایسک پیسہ بھی چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے لیکن آیت کا یہ عموم خوارج نے اختیار کیا ہے ورنہ اہل سنت کے نزدیک تو یہ حکم اس ڈھال کی قیمت پر دائر ہے جس پر عہد نبوت میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا تھا۔ عام صحابہ کے نزدیک اس سپر کی قیمت درس درہم تھی۔ (واللہ اعلم) (8) چوری کی بحث میں چور مرد کو ذکر میں مقدم فرمایا اور زنا کی بحث میں زانیہ عورت کے ذکر کو مقدم فرمایا جیسا کہ انشاء اللہ سورة نور میں آجائے گا اس پر ایک نکتہ تو اپنے بزرگوں سے منقول ہے کہ چوری مرد کے لئے بدترین عیب ہے اور زنا عورت کے لئے انتہائی عیب ہے اس لئے چوری میں مرد کو مقدم کیا اور زنا میں عورت کو مقدم کیا اور یا اس وجہ سے کہ چوری میں جرأت ہے اور جرأت مرد بھی بڑھی ہوئی ہے اور زنا کا تعلق شہوت سے ہے اور وہ عورت میں بڑھی ہوئی ہے اس لئے چوری میں مرد کو اور زنا میں عورت کو مقدم فرمایا۔ شاید یاد ہوگا کہ اوپر سے منافقین یہود کا ذکر ہو رہا تھا ان ہی کے ہمراہ نصاریٰ کا ذکر تھا۔ درمیان میں عض باتیں خاص خاص مناسبت سے آتی رہیں۔ اب پھر اصل بحث کی طرف عود ہے اور آخرت سورت تک یہود و نصاریٰ اور منافقین کا ذکر ہے اور ان مخالفین اسلام کی سازشوں کا انکشاف اور ان کے عقائد باطلہ کی مذمت ہے مگر یہ کہ کسی خاص مناسبت سے کوئی چیز زیر بحث آجائے جیسا کہ قرآن کریم کا قاعدہ اور ہر فصیح وبلیغ کلام کا بھی یہی طریقہ ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top