Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ
: کیا تو نہیں جانتا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
لَهٗ
: اسی کی
مُلْكُ
: سلطنت
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
يُعَذِّبُ
: عذاب دے
مَنْ يَّشَآءُ
: جسے چاہے
وَيَغْفِرُ
: اور بخش دے
لِمَنْ يَّشَآءُ
: جس کو چاہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے
قَدِيْرٌ
: قدرت والا
تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے واسطے ہے سلطنت آسمان اور زمین کی عذاب کرے جس کو چاہے اور بخشے جس کو چاہے اور اللہ سب چیز پر قادر ہے۔
بعد کی آیت میں ارشاد فرمایااَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ یعنی کیا آپ ﷺ کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت و حکومت صرف اللہ کی ہے، اور اس کی یہ شان ہے کہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔
اس آیت کا ربط و مناسب پچھلی آیات سے یہ ہے کہ پچھلی آیات میں ڈاکہ اور چوری کی حدود شرعیہ جن میں ہاتھ پاؤں یا صرف ہاتھ کاٹ ڈالنے کے سخت احکام ہیں، ظاہر نظر میں یہ احکام شرافت انسانی اور اس کے اکرم المخلوقات ہونے کے منافی ہیں، اس شبہ کے ازالہ کے لئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے پہلے اپنا مالک حقیقی ہونا سارے جہان کے لئے بیان فرمایا، پھر اپنے قادر مطلق ہونے کا ذکر فرمایا، اور ان کے درمیان یہ ارشاد فرمایا کہ وہ صرف سزا یا عذاب ہی نہیں دیتے، بلکہ معاف بھی فرماتے ہیں، اور اس معافی اور سزا کا مدار ان کی حکمت پر ہے، کیونکہ وہ جس طرح مالک مطلق اور قادر مطلق ہیں اسی طرح حکیم مطلق بھی ہیں، جس طرح ان کی قدرت و سلطنت کا احاطہ کوئی انسانی طاقت نہیں کرسکتی، اسی طرح ان کی حکمتوں کا پورا احاطہ بھی انسانی عقل و دماغ نہیں کرسکتے، اور اصول کے ساتھ غور و فکر کرنے والوں کو بقدر کفایت کچھ علم ہو بھی جاتا ہے جس سے ان کے قلوب مطمئن ہوجاتے ہیں۔
اسلامی سزاؤں کے متعلق اہل یورپ اور ان کی تعلیم و تہذیب سے متاثر لوگوں کا یہ عام اعتراض ہے کہ یہ سزائیں سخت ہیں، اور بعض ناعاقیت اندیش لوگ تو یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہتے کہ یہ سزائیں وحشیانہ اور شرافت انسانی کے خلاف ہیں۔
اس کے متعلق پہلے تو یہ سامنے رکھئے جو اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے، کہ قرآن کریم نے صرف چار جرموں کی سزائیں خود مقرر اور معین کردی ہیں، جن کو شرعی اصطلاح میں حد کہا جاتا ہے، ڈاکہ کی سزا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر، چوری کی سزا داہنا ہاتھ پہنچنے پر سے کاٹنا، زنا کی سزا بعض صورتوں میں سو کوڑے لگانا اور بعض میں سنگسار کرکے قتل کردینا، زنا کی جھوٹی تہمت کسی پر لگانے کی سزا اسی (80) کوڑے پانچویں حد شرعی شراب پینے کی ہے، جو باجماع صحابہ اسی (80) کوڑے مقرر کئے گئے ہیں ان پانچ جرائم کے سوا تمام جرائم کی سزا حاکم وقت کی صواب دید پر ہے، کہ جرم اور مجرم اور اس کے ماحول پر نظر کرکے جتنی اور جیسی چاہے سزا دے اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سزاؤں کی تحدید و تعیین کا کوئی خاص نظام اہل علم و اہل رائے کے مشورہ سے مقرر کرکے قاضی یا جج کو ان کا پابند کردیا جائے، جیسا کہ آج کل عموماً اسمبلیوں کے ذریعہ تعزیری قوانین متعین کئے جاتے ہیں، اور قاضی یا جج مقررہ حدود کے اندر سزا جاری کرتے ہیں، البتہ ان پانچ جرائم میں جن کی سزائیں قرآن یا اجماع سے متعین کردی گئی ہیں، اور ان میں کسی فرد یا جماعت یا اسمبلی کو تغیر و تبدل کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ مگر ان میں بھی اگر جرم کا ثبوت شریعت کے مقرر کردہ ضابطہ شہادت سے نہ ہوسکے، یا جرم کا ثبوت تو ملے مگر اس جرم پر جن شرائط کے ساتھ یہ سزا جاری کی جاتی ہے وہ شرائط مکمل نہ ہوں۔ اور نفس جرم قاضی یا جج کے نزدیک ثابت ہو تو اس صورت میں بھی حد شرعی جاری نہ ہوگی بلکہ تعزیری سزا دی جائے گی، اسی کے ساتھ یہ شرعی ضابطہ بھی مقرر اور مسلم ہے کہ شبہ کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ ثبوت جرم یا جرم کی شرائط میں سے کسی چیز میں شبہ پڑجائے تو حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، مگر نفس جرم کا ثبوت ہوجائے تو تعزیری سزا دی جائے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان پانچ جرائم میں بہت سی صورتیں ایسی نکلیں گی کہ ان میں حدود شرعیہ کا نفاذ نہیں ہوگا، بلکہ تعزیری سزائیں صواب دید حاکم کے مطابق دی جائیں گی، تعزیری سزائیں چونکہ شریعت اسلام نے متعین نہیں کیں بلکہ ہر زمانہ اور ہر ماحول کے مطابق عام قوانین ممالک کی طرح ان میں تغیر و تبدل اور کمی بیشی کی جاسکتی ہے، اس لئے ان پر تو کسی کو کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ اب بحث صرف پانچ جرائم کی سزاؤں میں اور ان کی بھی مخصوص صورتوں میں رہ گئی، مثال کے طور پر چوری کو لے لیجئے اور دیکھئے کہ شریعت اسلام میں ہاتھ کاٹنے کی سزا مطلقاً ہر چوری پر عائد نہیں، کہ جس کو عرف عام میں چوری کہا جاتا ہے۔ بلکہ سرقہ جس پر سارق کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کی ایک مخصوص تعریف ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے کہ کسی کا مال محفوظ جگہ سے سامان حفاظت توڑ کر ناجائز طور پر خفیہ طریقہ سے نکال لیا جائے اس تعریف کی رو سے بہت سی صورتیں جن کو عرفاً چوری کہا جاتا ہے، حد سرقہ کی تعریف سے نکل جاتی ہیں، مثلاً محفوظ مکان کی شرط سے معلوم ہوا کہ عام پبلک مقامات مثلاً مسجد، عیدگاہ، پارک، کلب، اسٹیشن، ویٹنگ روم، ریل، جہاز وغیرہ میں عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال کی کوئی چوری کرے یا درختوں پر لگے ہوئے پھل چرالے، یا شہد کی چوری کرے تو اسی طرح وہ آدمی جس کو آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے خواہ وہ آپ کا نوکر ہو یا مزدور ہو یا معمار ہو، یا کوئی دوست عزیز ہو وہ اگر آپ کے مکان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اگرچہ عرفی چوری میں داخل اور تعزیری سزا کا مستحق ہے، مگر ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا اس پر جاری نہ ہوگی، کیونکہ وہ آپ کے گھر میں آپ کی اجازت سے داخل ہوا، اس کے حق میں حفاظت مکمل نہیں۔
اسی طرح اگر کسی نے کسی کے ہاتھ میں سے زیور یا نقد چھین لیا، یا دھوکہ دے کر کچھ وصول کرلیا، یا امانت لے کر مکر گیا، یہ سب چیزیں حرام و ناجائز اور عرفی چوری میں ضرور داخل ہیں۔ مگر ان سب کی سزا تعزیری ہے، جو حاکم کی صواب دید پر موقوف ہے، شرعی سرقہ کی تعریف میں داخل نہیں۔ اس لئے اس پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
اسی طرح کفن کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا، کیونکہ اول تو وہ محفوظ جگہ نہیں، دوسرے کفن میّت کی ملکیت نہیں، ہاں اس کا یہ فعل سخت حرام ہے، اس پر تعزیری سزا حسب صواب دید حاکم جاری کی جائے گی، اسی طرح اگر کسی نے ایک مشترک مال میں چوری کرلی جس میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے، خواہ میراث کا مشترک مال تھا یا شرکت تجارت کا مال تھا، تو اس صورت میں چونکہ لینے والے کی ملکیت کا بھی کچھ اس میں شامل ہے اس ملکیت کے شبہ کی وجہ سے حد شرعی ساقط ہوجائے گی تعزیری سزا دی جائے گی۔
یہ سب شرائط تو تکمیل جرم کے تحت میں ہیں، جن کا اجمالی خاکہ آپ نے دیکھا ہے اب دوسری چیز تکمیل ثبوت ہے۔ حدود کے نفاذ میں شریعت اسلام نے ضابطہ شہادت بھی عام معاملات سے ممتاز اور بہت محتاط بنایا ہے۔ زنا کی سزا میں تو دو گواہوں کے بجائے چار گواہوں کو شرط قرار دیدیا، اور وہ بھی جبکہ وہ ایسی عینی گواہی دیں جس میں کوئی لفظ مشتبہ نہ رہے۔ چوری وغیرہ کے معاملہ میں اگرچہ دو ہی گواہ کافی ہیں مگر ان دو کے لئے عام شرائط شہادت کے علاوہ کچھ مزید شرطیں عائد کی گئی ہیں، مثلاً دوسرے معاملات میں مواقع ضرورت میں قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کے بارے میں اگر قاضی کو یہ اطمینان ہوجائے کہ عملی فاسق ہونے کے باوجود یہ جھوٹ نہیں بولتا تو قاضی اس کی گواہی کو قبول کرسکتا ہے۔ لیکن حدود میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا اختیار نہیں۔ عام معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، مگر حدود میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔ عام معاملات میں شریعت اسلام نے تمادی کو (یعنی مدّت دراز گزر جانے کو) کوئی عذر نہیں قرار دیا۔ واقعہ کے کتنے ہی عرصہ کے بعد کوئی گواہی دے تو قبول کی جاسکتی ہے، لیکن حدود میں اگر فوری گواہی نہ دی بلکہ ایک مہینہ یا اس سے زائد دیر کرکے گواہی دی تو وہ قابل قبول نہیں۔
حد سرقہ کے نفاذ کی شرائط کا اجمالی خاکہ جو اس وقت بیان کیا گیا ہے، یہ سب فقہ حنفی کی نہایت مستند کتاب بدائع الصنائع سے ماخوذ ہے۔
حاصل ان تمام شرائط کا یہ ہے کہ حد شرعی صرف اس صورت میں جاری ہوگی جبکہ شریعت مقدسہ کے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق جرم بھی مکمل ہو، اور اس کا ثبوت بھی مکمل، اور مکمل جرائم کی سزائیں بمقتضائے حکمت سخت مقرر کی ہیں۔ وہیں حدود شرعیہ کے نفاذ میں انتہائی احتیاط بھی ملحوظ رکھی ہے۔ حدود کا ضابطہ شہادت بھی عام معاملات کے ضابطہ شہادت سے مختلف اور انتہائی احتیاط پر مبنی ہے۔ اس میں ذرا سی کمی رہ جائے تو حد شرعی تعزیری سزا میں منتقل ہوجاتی ہے، اسی طرح تکمیل جرم کے سلسلہ میں کوئی کمی پائی جائے جب بھی حد شرعی ساقط ہو کر تعزیری سزا رہ جاتی ہے، جس کا عملی رخ یہ ہوتا ہے کہ حدود شرعیہ کے نفاذ کی نوبت شاذ و نادر کبھی پیش آتی ہے۔ عام حالات میں حدود والے جرائم میں بھی تعزیری سزائیں جاری کی جاتی ہیں۔ لیکن جب کہیں تکمیل جرم تکمیل ثبوت کے ساتھ جمع ہوجائے گو وہ ایک فیصد ہی ہو تو سزا نہایت سخت عبرتناک دی جاتی ہے۔ جس کی ہیبت لوگوں کے قلب و دماغ پر مسلط ہوجائے۔ اور اس جرم کے پاس جاتے ہوئے بھی بدن پر لرزہ پڑنے لگے جو ہمیشہ کے لئے انسداد جرائم اور امن عامہ کا ذریعہ بنتی ہے۔ بخلاف مروجہ تعزیری قوانین کے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کی نظر میں ایک کھیل ہیں جس کو وہ بڑی خوشی سے کھیلتے ہیں۔ جیل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی آئندہ اس جرم کو خوبصورتی سے کرنے کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ جن ممالک میں حدود شرعیہ نافذ کی جاتی ہیں ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی، کہ وہاں نہ آپ کو بہت سے لوگ ہاتھ کٹے ہوئے نظر آئیں گے، نہ سالہا سال میں آپ کو کوئی سنگساری کا واقعہ نظر پڑتا ہے۔ مگر ان شرعی سزاؤں کی دھاک قلوب پر ایسی ہے کہ وہاں چوری، ڈاکہ اور بےحیائی کا نام نظر نہیں آتا سعودی عربیہ کے حالات سے عام مسلمان براہ راست واقف ہیں۔ کیونکہ حج وعمرہ کے سلسلہ میں ہر طبقہ و ہر ملک کے لوگوں کی وہاں حاضری رہتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، لاکھوں کا سامان ان میں پڑا ہوا ہے، اور ان کا مالک بغیر دکان بند کئے ہوئے نماز کے وقت حرم شریف میں پہنچ جاتا ہے، اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد آتا ہے۔ اس کو کبھی یہ وسوسہ بھی پیش نہیں آتا کہ اس کی دکان سے کوئی چیز غائب ہوگئی ہوگی۔ پھر یہ ایک دن کی بات نہیں، عمر یوں ہی گزرتی ہے۔ دنیا کے کسی متمدن اور مہذب ملک میں ایسا کرکے دیکھئے تو ایک دن میں سینکڑوں چوریاں اور ڈاکے پڑجائیں گے۔ تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار عجیب ہیں، کہ جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پورے عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے، جن کی زندگی ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنا رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کرنے کا مرادف اور امن عامہ کو مختل کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جو نیکوں، بدوں، اتقیاء، اولیاء اور کفار و فجار سب کو رزق دیتا ہے۔ سانپوں، بچھوؤ ں، شیروں، بھیڑیوں کو رزق دیتا ہے اور جس کی رحمت سب پر وسیع ہے اس نے جب حدود شرعیہ کے احکام قرآن میں نازل فرمائے تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایاولا تاخذکم بھما رافۃ فی دین اللّٰہ یعنی ”اللہ کی حدود جاری کرنے میں ان مجرموں پر ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے“۔ اور دوسری طرف قصاص کو عالم انسانی کی حیات قرار دیا، (آیت) ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حدود کے خلاف کرنے والے یہ چاہتے ہی نہیں کہ جرائم کا انسداد ہو، ورنہ جہاں تک رحمت و شفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلام سے زیادہ کون سکھا سکتا ہے۔ جس نے عین میدان جنگ میں اپنے قاتل دشمنوں کا حق پہچانا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ عورت سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، بچہ سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، بوڑھا سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، مذہبی عالم جو تمہارے مقابلہ پر قتال میں شریک نہ ہو اپنے طرز کی عبادت میں مشغول ہو اس کو قتل نہ کرو۔
اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ان اسلامی سزاؤں پر اعتراض کے لئے ان لوگوں کی زبانیں اٹھتی ہیں جن کے ہاتھ ابھی تک ہیروشیما کے لاکھوں بےگناہ، بےقصور انسانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ جن کے دل میں شاید کبھی مقاتلہ اور مقابلہ کا تصور بھی نہ آیا ہو۔ ان میں عورتیں بچے بوڑھے سب ہی داخل ہیں اور جن کی آتش غضب ہیروشیما کے حادثہ سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ روز کسی خطرناک سے خطرناک نئے بم کے بنانے اور تجربہ کرنے میں مشغول ہیں، ہم اس کے علاوہ کیا کہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں سے خود غرضی کے پردے ہٹا دے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے صحیح اسلامی طریقوں کی طرف ہدایت کرے۔
Top