Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 206
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یُسَبِّحُوْنَهٗ وَ لَهٗ یَسْجُدُوْنَ۠۩  ۞   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ عِنْدَ : نزدیک رَبِّكَ : تیرا رب لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَيُسَبِّحُوْنَهٗ : اور اس کی تسبیح کرتے ہیں وَلَهٗ : اور اسی کو يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
بیشک جو196 تیرے رب کے نزدیک ہیں اور تکبر نہیں کرتے اس کی بندگی سے اور یاد کرتے ہیں اس کی پاک ذات کو اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں
196: اسم موصول سے باجماع مفسرین فرشتے مراد ہیں اور اللہ کے قریب ہونے سے منزلت اور مرتبہ میں قرب مراد ہے۔ “ ھذا علی جهة التشریف لھم وانھم بالمکان المرکم فھو عبارة عن قربھم فی الکرامةلا فی المسافة ” (قرطبی ج 7 ص 356) ۔ “ فالمراد من العندیة القرب من اللہ تعالیٰ بالزلفی والرضاء الخ ” (روح ج 9 ص 155) ۔ یعنی ملا اعلیٰ جو ہر وقت اللہ کے قرب و رضاء میں رہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ کی عبادت اور اس کی پکار سے استکبار نہیں کرتے اور ہر وقت اللہ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں اور اللہ ہی کے سامنے سجدہ کر کے غایت خضوع و تذلل کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ “ اخبر اللہ عن حال الملائکة انھم خاضعون بعظمته لا یستکبرون عن عبادته ” (خازن ج 2 ص 274) “ اي و یخصونہ بغایة العبودیة والتذلل لا یشرکون به غیرہ جل شانه ”(روح) سورة اعراف کے اختتام پر سب سے پہلا سجدہ تلاوت ہے۔ یہ سجدہ عزائم میں سے ہے۔ سورة اعراف کی خصوصیات اور اس میں آیات توحید 1 ۔ “ کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْهُ الخ ”(رکوع 1) ۔ مسئلہ توحید کھول کر پہنچائیں اور اس سے دل میں تنگی نہ آنی چاہئے۔ 2 ۔ “ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ” (رکوع 3) ۔ گمراہ کرنیوالے شیاطین ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ صرف ایک ابلیس ہی ہر جگہ حاضر و ناظر ہو کر سب کو گمراہ نہیں کر رہا۔ 3 ۔ “ حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ ” (رکوع 4) ۔ روحیں قبض کرنے پر ہزاروں لاکھوں فرشتے مقرر ہیں۔ صرف ایک ملک الموت ہی ہر جگہ حاضر و ناضر ہو کر سب کی جانیں قبض نہیں کرتا۔ 4 ۔ “ کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا ” تا “ وَلٰکنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ” (رکوع 4) مشرک پیروں اور مریدوں کے بارے میں۔ 5 ۔ “ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَی الْعَرْشِ ” تا “ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ” (رکوع 7) زمین و آسمان کو اسی نے پیدا کیا اور سارا نظام عالم اسی کے قبضے میں ہے اور اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کیا۔ 6 ۔ “ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ” (رکوع 8) 7 ۔ “ وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ” (رکوع 9) 8 ۔ “ وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا للّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ ” (رکوع 10) 9 ۔ “ وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبدُوْ اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ ” (رکوع 11) ۔ حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب (علیہم السلام) نے اعلان کیا کہ اللہ کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں اس لیے حاجات و مشکلات میں اسی کو پکارو۔ 10 ۔۔ “ قَالُوْا اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا ” تا “ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ” (رکوع 14) ۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کی توحید کے واضح دلائل کو مان لیا۔ 11 ۔ “ اَ لَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَايھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا ” (رکوع 18) ۔ جو ایسا عاجز اور بےبس ہو وہ کسی طرح کارساز اور متصرف و مختار نہیں ہوسکتا۔ 12 ۔ “ قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا الخ ”(رکوع 20) ۔ آنحضرت ﷺ کا اعلان توحید۔ میں اس اللہ کا رسول ہوں جو زمین و آسمان کا بادشاہ اور سارے عالم میں واحد متصرف و مختار ہے اور اس کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ 13 ۔ “ وَ اسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۔ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ ” تا “ نَبْلُوْھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ” (رکوع 21) ناجائز حیلوں اور بہانوں سے خدا کے احکام کی بےحرمتی کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ 14 ۔ “ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوْا الْکِتٰبَ یَاخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنیٰ وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا۔ ” (رکوع 21) ۔ اچھے لوگوں کے بعد برے لوگ اور علماء سوء ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے دنیا کی حقیر دولت کے عوض اللہ کی کتاب میں تعریف کرنا شروع کردی اور کہنے لگے ہمارے آباء و اجداد ہمیں بخشوا لیں گے۔ 15 ۔ “ وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ الَّذِيْ اٰتَیْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا ” جو عالم دین مسئلہ حق کو سمجھنے کے بعد محض لالچ اور طمع دنیا کی وجہ سے حق چھوڑتا ہے اس کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت ہے۔ 16 ۔ “ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَة اَيَّانَ مُرْسٰھَا۔ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ ” (رکوع 23) قیامت قائم ہونے کا مخصوص دن صرف اللہ ہی کو معلوم ہے اس کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہیں۔ 17 ۔ “ ھُوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَهَا ” تا “ وَ لَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْن۔ ” (رکوع 24) سب کو اللہ ہی نے پیدا کی اور نر کی تسکین لیے اس کی مادہ کو پیدا کیا اور وہی اولاد عطا کرتا ہے لیکن مشرک لوگ اللہ کی عاجز مخلوق کو اس کا شریک بناتے اور عطیہ اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 18 ۔ “ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُْ فَادْعُوْھُم فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ” (رکوع 24) ۔ جن بزرگوں کو تم متصرف و کارساز سمجھ کر پکارتے ہو وہ بھی تمہاری طرح عاجز اور اللہ کے محتاج ہیں اور تم ان کو پکار کر دیکھ لو وہ تمہارا کچھ نہیں سنوار سکیں گے۔ 19 ۔ “ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُونَ نَصْرَکُمْ وَ لَا اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ ” (رکوع 24) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تو اپنا بھی کچھ نہیں سنوار سکتے تمہاری کیا مدد کرینگے۔ 20 ۔ “ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۔ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” (رکوع 24) ۔ جب شیطان دل میں کوئی وسوسہ ڈالدے تو فوراً اس سے اللہ کی پناہ مانگیں کیونکہ سب کچھ سننے اور جاننے والا وہی ہے اور کوئی نہیں۔ الحمد للہ سورة اعراف ختم ہوئی
Top