Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 147
مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا
مَا يَفْعَلُ : کیا کرے گا اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابِكُمْ : تمہارے عذاب سے اِنْ شَكَرْتُمْ : اگر تم شکر کرو گے وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤگے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ شَاكِرًا : قدر دان عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اگر تم شکر گزار ہو اور ایمان لے آئو تو اللہ تعالیٰ تم کو سزا دے کر کیا کرے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑا قدر شناس اور سب کا حال جاننے والا ہے۔3
3 یقین جانو ! کہ منافق جہن مکہ سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور اے مخاطب تو ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا جو ان کو اس سے سزا بچا سکے مگر ہاں وہ لوگ اس عذاب سے مستثنیٰ ہیں جو نفاق سے توبہ کرلیں اور اپنے معاندانہ برتائو کی اصلاح کرلیں اور کافروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ پر پورا اعتماد اور توکل رکھیں اور اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے خلاص کرلیں یعنی دین کے جو اعمال کریں وہ خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کریں ت و ایسے توبہ کرنے والے لوگ کامل مومنوں کے ہمراہ ہونگے اور عنقریب ان کاملین مومنین کو اللہ تعالیٰ بہت بڑا صلہ اور اجر عطا فرمائے گا اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہوں گے ان کو اجر عظیم ملے گا اور تم یہ تو سوچو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو اور تم ایمان لے آئو تو وہ تم کو عذاب کر کے اور سزا دے کر کیا کرے گا یعنی اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ تم کو خواہ مخواہ سزا دے حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑا قدر شناس اور خدمت کی قدر کرنے والا اور سب کی حالت کو خوب جاننے والا ہے۔ (تیسیر) درک طبقہ جہنم کے مختلف طبقات ہیں سب سے نیچے کے طبقہ کا نام ہادیہ ہے غالباً اسی طرح اشارہ ہے دوزخ کے طبقات یہ ہیں جہنم، لنطی حطمتہ، سعیر، سقر حجیم ہادیہ بہرحال ! منافقوں کو ہادیہ میں رکھا جائے گا۔ لیکن ہر گناہ کے لئے توبہ ہوسکتی ہے اس لئے تائبین کو مستثنیٰ فرما دیا۔ منافق میں نفاق تو اصل مبنی ہے اور نفاق کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تو اخلاص فی الدین ختم ہوجاتا ہے اور ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قیامت میں یہ اسلام کچھ کام نہیں آتا اور ظاہری اسلام کا دعویٰ بےکار ہوجاتا ہے اور مخلص مسلمانوں کی معیت نصیب نہیں ہوتی اور مسلمانوں کو جو اجر ملنے والا ہے اس میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ ترتیب بیان فرمائی کہ نفاق جو اصل ہے تمام امراض کی اس سے پہلے توبہ کرو۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ جو غر شریفانہ برتائو ہے اس کی اصلاح کرو اور کفار کی دوستی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑو اور اسی پر بھروسہ رکھو اور اخلاص فی الدین اختیار کرو یعنی دین کا جو کام کرو اس میں اللہ تعالیٰ کی ضا مندی اور خوشنودی پیش نظر رکھو جب نفاق دور ہوگا اور یہ خوبیاں پیدا ہوجائیں گی تو جہنم کی سزا سے محفوظ رہو گے اور قیامت میں مخلص مسلمانوں کی معیت اور ہمراہی کی دولت نصیب ہوگی اور جب مسلمانوں کے ہمراہ ہو گے تو جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ ہوگا وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔ سبحان اللہ ! کیا ترتیب ہے آخر میں اس بات پر تنبیہہ فرمائی ک دو باتیں اگر بندوں کی جانب سے ہوں ایک ایمان اور ایک شکر تو ہم کو کیا پڑی کہ ہم ان کو عذاب کریں شکر سے مراد اعمال صالحہ ہیں۔ بعض لوگوں نے ایمان کو شکر کا عطف تفسیری قرار دیا ہے اور یہ مطلب لیا ہے کہ ایمان کامل کے اگر پابند ہو تو اللہ تعالیٰ عذاب کر کے کیا کرے گا نتیجے کے اعتبار سے دونوں کا حاصل ایک ہی ہے۔ ایمان کامل بھی وہی ہے جس کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں، غرض ! مومن شاکر کو عذاب سے مامون فرماتا اور یہ بتانا مقصود ہے کہ عذاب سے ہمارا کچھ فائدہ اور نہ عذاب کے ترک سے ہمارا کوئی نقصان اگر تم حکم کی تعمیل کرو گے تو سزا سے محفوظ رہو گے۔ ان دو جملوں میں تمام دین کا خلاصہ آگیا ایمان میں تمام عقائد آگئے اور شکر میں اوامر کا بجالانا اور نواہی سے بچنا آگیا ۔ شاکر اعلیما کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے ہاں خدمت گذاروں کی بڑی قدر ہے۔ (تسہیل)
Top