Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 147
مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا
مَا يَفْعَلُ : کیا کرے گا اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابِكُمْ : تمہارے عذاب سے اِنْ شَكَرْتُمْ : اگر تم شکر کرو گے وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤگے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ شَاكِرًا : قدر دان عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اگر تم (خدا کے شکرگزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔ اور خدا تو قدرشناس اور دانا ہے
ما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم اور اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزاری کرو اور ایمان لے آؤ۔ استفہام انکاری اور تقریری ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ شکر گزار مؤمن کو عذاب نہیں دے گا کیونکہ بندوں کو عذاب دینے سے نہ اس کے اقتدار میں اضافہ ہوجاتا ہے نہ عذاب دینے سے حکومت میں کوئی کمی آجاتی ہے۔ کسی فائدہ کا حاصل کرنا یا ضرر کو دفع کرنا تو عذاب دینے کا مقصد ہی نہیں ہے اللہ ہر نفع و نقصان سے پاک ہے البتہ اس کا دستور ہے کہ اس نے نتیجہ کو سبب سے وابستہ کردیا ہے بندوں کو عذاب دینے کے معاملہ میں بھی اس کا یہی دستور ہے جیسے مزاج کے بگڑنے سے مرض پیدا ہوتا ہے اگر ایمان اور شکر کی وجہ سے آدمی کی قلبی بیماری یعنی نفاق و کفر کا ازالہ ہوجائے اور دل کو پاک کرلیا جائے تو آدمی ہر برے نتیجہ سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے آیت میں کچھ لفظی تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل میں اِنْ اٰمَنْتُمْ وشکرتم تھا۔ میں کہتا ہوں اس قول کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ واؤ مطلق عطف کے لئے آتا ہے عطف ترتیبی کے لئے نہیں آتا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ شکر کو ایمان سے پہلے اس لئے ذکر کیا کہ شروع میں آدمی نعمت کو دیکھ کر مبہم طور پر شکر گزار ہوتا ہے پھر گہری نظر کرتا ہے تو منعم کو پہچانتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ میں کہتا ہوں شاید شکر سے مراد ہے ایمان مجازی عامی جو کفر کی ضد ہے اور ایمان سے مراد ہے ایمان حقیقی (اور ایمان مجازی ایمان حقیقی کا زینہ ہے ظاہری مجازی ایمان سے ہی ترقی کر کے آدمی ایمان حقیقی تک پہنچتا ہے اسی لئے شکر کو ایمان سے پہلے ذکر کیا) ۔ وکان اللہ شاکرا علیما . اور اللہ بڑی قدر کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے یعنی شکر کا ثواب عطا کرتا ہے۔ تھوڑا قبول فرماتا ہے اور زیادہ عطا کرتا ہے اور تمہارے ایمان کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
Top