Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے دی ہیں تجھ کو سات آیتیں وظیفہ اور قرآن بڑے درجہ کا
خلاصہ تفسیر
اور (آپ ان کے معاملہ کو نہ دیکھئے کہ موجب غم ہوتا ہے ہمارا معاملہ اپنے ساتھ دیکھئے کہ ہماری طرف سے آپ کے ساتھ کس قدر لطف و عنایت ہے چنانچہ) ہم نے آپ کو (ایک بڑی بھاری نعمت یعنی) سات آیتیں دیں جو (نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں اور وہ (بوجہ جامع مضامین عظیمہ ہونے کے اس قابل ہے کہ اس کے دینے کو یوں کہا جاوے کہ) قرآن عظیم دیا (مراد اس سے سورة فاتحہ ہے جس کی عظمت کی وجہ سے اس کا نام ام القرآن بھی ہے پس اس نعمت اور منعم کی طرف نگاہ رکھئے کہ آپ کا قلب مسرور و مطمئن ہو ان لوگوں کے عناد و خلاف کی طرف التفات نہ کیجئے اور) آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی اس چیز کو نہ دیکھئے (نہ بلحاظ افسوس نہ بلحاظ ناراضگی) جو کہ ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو (مثلا یہود و نصاری مجوس اور مشرکین کو) برتنے کے لئے دے رکھی ہے (اور بہت جلد ان سے جدا ہوجائے گی) اور ان (کی حالت کفر) پر (کچھ) غم نہ کیجئے (بلحاظ ناراضگی نظر کرنے سے یہ مراد ہے کہ چونکہ وہ دشمن خدا ہیں اس لئے بوجہ بغض فی اللہ غصہ آئے کہ ایسی نعمتیں ان کے پاس نہ ہوتیں اس کے جواب کی طرف متعنا میں اشارہ ہے کہ یہ کوئی بڑی بھاری دولت نہیں کہ ان مبغوضین کے پاس نہ ہوتیں یہ تو متاع فانی ہے بہت جلد جاتا رہے گا اور بلحاظ افسوس کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ افسوس یہ چیزیں ان کو ایمان سے مانع ہو رہی ہیں اگر یہ نہ ہوں تو غالبا ایمان لے آئیں اس کا جواب لا تحزن میں ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کی طینت میں حد درجہ عناد ہے ان سے کسی طرح توقع نہیں اور حزن ہوتا ہے خلاف توقع پر جب توقع نہیں تو پھر حزن بےوجہ سے اور بہ لحاظ حرص نظر کرنے کا تو آپ سے احتمال ہی نہیں غرض یہ کہ آپ کسی بھی طرح ان کفار کے فکر وغم میں نہ پڑئیے) اور مسلمانوں پر شفقت رکھئے (یعنی فکر مصلحت اور شفقت کے لئے مسلمان کافی ہیں کہ ان کو اس سے نفع بھی ہے) اور (کافروں کے لئے چونکہ فکر مصلحت کا کوئی نتیجہ نہیں اس لئے ان کی طرف توجہ بھی نہ کیجئے البتہ تبلیغ جو آپ کا فرض منصبی ہے اسکو ادا کرتے رہئے اور اتنا) کہہ دیجئے کہ میں کھلم کھلا (تم کو خدا کے عذاب سے) ڈرانیوالا ہوں (اور خدا کی طرف سے تم کو یہ مضمون پہنچاتا ہوں کہ وہ عذاب جس سے ہمارا نبی ڈراتا ہے ہم تم پر کسی وقت ضرور نازل کریں گے) جیسا ہم نے (وہ عذاب) ان لوگوں پر (مختلف اوقات گذشتہ میں) نازل کیا ہے جنہوں نے (احکام الہی کے) حصے کر رکھے تھے یعنی آسمانی کتاب کے مختلف اجزا قرار دیئے تھے (ان میں جو مرضی کے موافق ہوا مان لیا جو مرضی کے خلاف ہو اس سے انکار کردیا مراد اس سے سابق یہود و نصاری ہیں جن پر مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذابوں کا ہونا مثل مسخ بصورت بندر وخنزیر، قید قتل اور ذلت مشہور و معروف تھا مطلب یہ کہ عذاب کا نازل ہونا امر بعید نہیں پہلے ہوچکا ہے اگر تم پر بھی ہوجائے تو تعجب کی کون سی بات ہے خواہ وہ عذاب دنیا میں ہو یا آخرت میں اور جب تقریر مذکور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح پچھلے لوگ مخالفت انبیاء (علیہم السلام) کی وجہ سے عذاب کے مستحق تھے اسی طرح موجودہ لوگ بھی مستحق عذاب ہوگئے ہیں) سو (اے محمد ﷺ ہم کو) آپ کے پروردگار کی (یعنی اپنی) قسم ہم ان سب (اگلوں اور پچھلوں) سے ان کے اعمال کی (قیامت کے روز) ضرور باز پرس کریں گے (پھر ہر ایک کو اس کے مناسب سزا دیں گے غرض (حاصل کلام یہ کہ) آپ کو جس بات (کے پہنچانے) کا حکم کیا گیا ہے اس کو (تو) صاف صاف سنا دیجئے اور (اگر یہ نہ مانے تو) ان مشرکوں (کے نہ ماننے) کی (مطلق) پروا نہ کیجئے (یعنی غم نہ کیجئے جیسا اوپر آیا ہے لا تحزن اور نہ طبعی طور پر خوف کیجئے کہ یہ مخالف بہت سے ہیں کیونکہ) یہ لوگ جو (آپ کے اور خدا کے مخالف ہیں چناچہ آپ پر تو) ہنستے ہیں (اور) اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان (کے شر و ایذاء) سے آپ (کو محفوظ رکھنے) کے لئے (اور ان سے بدلہ لینے کے لئے) ہم کافی ہیں سو ان کو ابھی معوم ہوا جاتا ہے (کہ استہزاء اور شرک کیا انجام ہوتا ہے غرض جب ہم کافی ہیں پھر کا ہے کا خوف ہے اور واقعہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ جو (کفر و استہزاء کی) باتیں کرتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں (کہ یہ طبعی بات ہے) سو (اس کا علاج یہ ہے کہ) آپ اپنے پروردگار کی تسبیح و تمحید کرتے رہئے اور نمازیں پڑھنے والوں میں رہئے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ (ایسی حالت میں) آپ کو موت آجائے (یعنی مرتے دم تک ذکر و عبادت میں مشغول رہئے کیونکہ ذکر اللہ اور عبادت میں آخرت کے اجر وثواب کے علاوہ یہ خاصیت بھی ہے کہ دنیا میں جب انسان اس طرف لگ جاتا ہے تو دنیا کے رنج وغم اور تکلیف و مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے)

معارف و مسائل
سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا متن اور خلاصہ ہے۔
ان آیات میں سورة فاتحہ کو قرآن عظیم کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سورة فاتحہ ایک حیثیت سے پورا قرآن ہے کیونکہ اصول اسلام سب اس میں سموئے ہوئے ہیں
محشر میں سوال کس چیز کا ہوگا
آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا کہ ان سب اگلوں پچھلوں سے ضرور سوال اور باز پرس ہوگی صحابہ کرام ؓ اجمعین نے آنحضرت محمد ﷺ سے سوال کیا کہ یہ سوال کس معاملہ کے متعلق ہوگا تو آپ نے فرمایا قول لا الہ الا اللہ کے متعلق تفسیر قرطبی میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک اس سے مراد اس عہد کو عملی طور پر پورا کرنا ہے جس کی علامت کلمہ طبیہ لا الہ الا اللہ ہے محض زبانی قول مقصود نہیں کیونکہ زبان سے اقرار تو منافقین بھی کرتے تھے حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ایمان کسی خاص وضع وہیت بنانے سے اور دین محض تمنائیں کرنے سے نہیں بنتا بلکہ ایمان اس یقین کا نام ہے جو قلب میں ڈال دیا گیا ہو اور اعمال نے اس کی تصدیق کی ہو جیسا کے ایک حدیث میں حضرت زید بن ارقم سے روایات ہے کہ رسول کریم ﷺ فرمایا کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے گا وہ ضرور جنت میں جائے گا لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ اس کلمہ میں اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب یہ کلمہ انسان کو اللہ کے محارم اور ناجائز کاموں سے روک دے تو وہ اخلاص کے ساتھ ہے (قرطبی)
Top